مکرمی !نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بجلی کے شعبے میں اصلاحات کا عمل تیزی سے جاری ہے، بجلی چوروں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے گی، سمگلنگ کی روک تھام کے لئے ملک بھر بالخصوص سرحدی علاقوں میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے جس کے مثبت نتائج بھی موصول ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوچکا ہے،یہ امرخوش آئندہے کہ نہ صرف بجلی چوری میں ملوث افسروں کو تبدیل کیا جائے گا بلکہ صوبائی اور ضلعی سطح پر ٹاسک فورسز بنائی جائیں گی جبکہ بجلی سے متعلق مقدمات کے فیصلوں کے لیے خصوصی عدالتیں بھی قائم کی جائیں گی۔ایک تخمینے کے مطابق ہر سال 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے یا بل ادا نہیں کئے جاتے، سب سے زیادہ نقصان پشاور، کوئٹہ، حیدر آباد، سکھر، قبائلی علاقوں اور آزاد کشمیر میں ہوتا ہے، اِن شہروں میں بجلی کے نقصانات 30 سے 60 فیصد ہیں۔ شعبہ توانائی میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں،جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہوتی اور لوگ بل ادا نہیں کرتے اس وقت تک سستی بجلی ملنا ناممکن ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ نگران حکومت کی جانب سے سمگلنگ کے خلاف شروع کیے جانے والے کریک ڈاؤن کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ حکومت کی اِس کاوش کو نہ صرف سراہا جانا چاہئے بلکہ تمام متعلقہ اداروں اور کاروباری افراد کو اِس کی کامیابی کے لیے ہر ممکن تعاون کو بھی یقینی بنانا چاہئے۔ نگران حکومت کے بنتے ہی ملک میں ہر طرح کا مافیا بے لگام ہو گیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ چاہے کرنسی ہو یا اشیائے ضروریہ، کسی بھی چیز پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے تاہم جیسے ہی حکومت نے اقدامات لینا شروع کیے تو اس کے نتائج بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی سخت مانیٹرگ نہ کی گئی تو مہنگائی کو لگام ڈالنا مشکل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے مسائل بہت گھمبیر ہیں، ہمیں صرف قلیل نہیں بلکہ طویل مدتی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے، موجودہ نظام کو بچانا ہے تو اِسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔معیشت کے استحکام کی خاطر پوری قوم کو اپنے اطوار بدلنا پڑیں گے،فضول خرچی والی روش ترک کرکے کفایت شعاری کواپنا ہوگا۔ ملکی حالات سنوارنے کی کوشش میں ہر شعبہ ہائے زندگی اور اِن سے تعلق رکھنے والے سبھی افراد کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ (قاضی جمشیدعالم صدیقی،لاہور)