مکرمی !پاکستان زرعی ملک ہے بھارت پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمارے پانی کے وسائل پر قابض وغاصب ہے اور سال بھر ہم زراعت کے لئے پانی کی بوند بوند کو ترستے رہتے ہیں۔پاکستان کا نہری نظام دنیا کا بہترین نہری سسٹم تصور ہوتا ہے لیکن ایسے اچھے نطام کا کیا فائدہ جب ان میں سال میں چھ ماہ پانی نہیں بلکہ خشکی ریگ رواں رہتی ہے ۔ ہم نے اپنی ضرورت کے تحت ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر نہ کر کے اپنی زراعت کو بنجر کئے بیٹھے ہیں ، نہ ختم ہونے والے بجلی بحران کا سامنا ہے،زرعی ملک ہونے کے ناطے گندم جیسا غلّہ بھی بھاری زرِ مبادلہ کے عوض باہر سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں،چینی ،پیاز ٹماٹر تک قلیل ونایاب ہو جاتے ہیں ۔ نصف درجن سے زائد ہولناک اور تباہ کن سیلاب جب کہ بیسیوں چھوٹے سیلابوںکی وجہ سے اپنے بے تحاشا جانی و مالی نقصان کرواتے چلے آ رہے ہیں ۔ سیلاب سے عمارات ،میدان،گھر ، سرکاری بلڈنگز،شہر ڈوب جاتے ہیں۔ہزاروں انسانی جانیں،لائیو اسٹاک کا ذخیرہ تلف ہو جاتا ہے ۔سیلاب کا ذمہ ہم بھارت کے پانی چھورنے پر لگا کر خود اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں تلخ حقیقت ہے کہ دشمن نے کب ہمیں کہا تھا کہ تم ڈیمز کی تعمیر نہ کر کے سیلاب اور خشک سالی سے تباہ کاریاں کرتے رہو؟ اس معاملہ میں ہم سب قومی مجرم ہیں جنہوں نے پچھتر سال سے پانی کی ایک وسیع مقدار سے یا تو سیلاب کے عذاب جھیلتے چلے آتے ہیں یا سمندر میں ضائع کر کے خشک سالی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ (امتیاز یاسین ،فتح پور)