چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں منعقد ہونے والی اَپنی 20 ویں پارٹی کانگریس میں چینی صدر شی جن پنگ کو آئندہ پانچ سال کے لیے پارٹی کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا ہے جس کے بعد صدر شی جن پنگ کا تیسری مدت کے لیے چین کا صدر منتخب ہونا ایک رسمی کارروائی رہ گئی ہے جو کہ مارچ 2023 میں منعقد ہونے والے نیشنل پیپلز کانگریس کے اِجلاس میںمکمل ہوگی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی 20 ویں پارٹی کانگریس میں ملک بھر سے چینی کمیونسٹ پارٹی کے تقریباً 90ملین ممبران کی نمائندگی کرتے ہوئے تقریباً 2300 مندوبین نے شرکت کی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے اَرکان کی کل تعداد 205 ہے جبکہ پارٹی کا اَہم اِدارہ پولِٹ بیورو 24 اَراکین پر مشتمل ہے اور پولِٹ بیورو کی سٹینڈنگ کمیٹی شی جن پِنگ سمیت سات اَرکان پر مشتمل ہے۔ پارٹی کی نئی 205 رکنی مرکزی کمیٹی، جسے ہفتہ بھر جاری رہنے والی کانگریس کے اختتام پر مندوبین کے ذریعے منتخب کیا گیا ہے، میں سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم لی کی چیانگ یا گوانگ ڈونگ ریجن کے پارٹی کے سابق سربراہ وانگ یانگ کو شامل نہیں کیا گیا، جنہیں بطور وزیر اعظم ممکنہ متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ 67 سالہ چین کے 'لبرل' کی حیثیت سے پہچانے والے وانگ کا شمار ان سرفہرست امیدواروں میں ہوتا تھا جنہیں لی کی چیانگ کی جگہ لینے کے لیے وزیرِاَعظم نامزد کیے جانے کی امید تھی جب لی کی چیانگ مارچ میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے وزیرِاَعظم کے طور پر اپنے عہدہ سے سبکدوش ہونے والے تھے۔ لی کی چیانگ اور نائب وزیر اعظم ہو چن ہوا کی طرح، وانگ کے کمیونسٹ یوتھ لیگ سے تعلقات ہیں، جسے صدر شی جن پنگ کا ایک حریف دھڑا سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، پارٹی کے کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ وانگ نے کم پروفائل رکھنے اور پچھلے پانچ سالوں میں اسٹینڈنگ کمیٹی میں صدر شی کے ساتھ وفاداری کے ساتھ خدمات انجام دینے کے بعد شی کا اعتماد حاصل کر لیا تھا اور شی جن پنگ کے دور کے حالیہ برسوں میں، وانگ نے بظاہر اپنے اصلاحی رجحانات کو تبدیل کیا ہے، تائیوان، سنکیانگ اور تبت سمیت حساس سیاسی معاملات پر پارٹی کے سخت موقف کو دہراتے ہوئے، شی کی حمایت کا اظہار کیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طاقتور پولٹ بیورو کی قائمہ کمیٹی میں اِن دونوں لیڈرز کو شامل نہ کرنا اِس بات کی علامت ہے کہ پولٹ بیورو کی قائمہ کمیٹی ممکنہ طور پر شی جن پنگ کے قریبی لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ صدر شی جن پنگ کا چینی کیمونسٹ پارٹی کا تیسری مرتبہ جنرل سیکرٹری منتخب ہونا اور نتیجتاً اَگلے پانچ سالوں کے لیے چین کا صدر منتخب ہونا ایک ایسا عمل ہے جس کی چینی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ میں پہلے نظیر نہیں ملتی۔ بیسویں کانگریس کے سب سے بڑے اَپ سیٹ میں، چینی کمیونسٹ پارٹی کے سابق لیڈر ہوجن تاؤ کو تمام حاضرین اور ٹیلی ویڑن کیمروں کی موجودگی میں عظیم عوامی ہال سے باہر لے جایا گیا۔ ٹی وی سے براہِ راست ٹیلی کاسٹ ہونے والے اِس نایاب لمحے کی وجہ ایک معمہ بنی ہوئی ہے، لیکن اَمریکی رسالے فارن پالیسی کے جیمز پامر اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ صدر شی نے جان بوجھ کر اور عوامی طور پر اپنے پیشرو کو اس طرح دکھانے کی کوشش کی ہے تاکہ کل طاقت کے پیغام کو چین میں گھر گھر پہنچایا جا سکے۔ تاہم میری نظر میں اِس سلسلے میں حتمی طور پر کوئی رائے قائم کرنا مشکل ہے کیونکہ چین میں پالیسی تشکیل دینے کے عمل کو " بلیک باکس" سے تشبیہ دی جاتی ہے جس میں سے نتیجہ تو معلوم ہوتا ہے مگر بحث و مباحثے کا عمل خفیہ رکھا جاتا ہے جس تک رسائی بہرحال ناممکن ہوتی ہے اور چینی پالیسی ساز اِس نتیجے تک کیسے پہنچے ہیں اِس کا پتہ لگنا بھی مشکل ہے۔ پارٹی کانگریس نے اَپنے بیسویں اِجلاس میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ایک ملک، دو نظام کی پالیسی چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کی ایک بڑی اختراع ہے۔ مادر وطن واپسی کے بعد ہانگ کانگ اورمیکاؤ میں پائیدار خوشحالی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے یہ بہترین ادارہ جاتی انتظام ثابت ہوا ہے۔ اس پالیسی پر طویل مدت تک عمل کیا جانا چاہیے۔اِسی طرح "ون چائنا اصول" اور 1992 کے اتفاق رائے پر عمل کرنے پر زور دیا گیا ہے اور نئے دور میں تائیوان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی پارٹی کی مجموعی پالیسی کو نافذ کرنے کی تجویز کی منظوری دی گئی ہے۔ اِجلاس کے اِعلامیہ کے مطابق، "تائیوان کی آزادی" کی مخالفت کرنے اور دوبارہ اتحاد کو فروغ دینے، آبنائے پار تعلقات میں پہل کرنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے اور قومی اتحاد کے مقصد کو غیرمتزلزل طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے پرعزم اقدامات کرنے چاہئیں"۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تائیوان کی آزادی کے خواہاں علیحدگی پسندوں کی مخالفت اور روکنے کے اقدامات کا عزم بھی پہلی بار شامل کیا گیا ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق نئی پولٹ بیورو کی قائمہ کمیٹی فیصلہ کن طور پر اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ شی نے کمیونسٹ پارٹی کے اوپری حصے میں طاقت کو اس حد تک مضبوط کیا ہے جو ماؤ زے تنگ دور کے بعد سے نظر نہیں آتا تھا جبکہ شی نے کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ فیصلہ ساز ادارے کی تمام نشستوں پر اپنے اتحادیوں کو بٹھا دیا ہے، جس سے وہ مستقبل قریب کے لیے سیاسی نظام پر غلبہ حاصل کر سکیں گے۔ اِس لیے یہ کہنا درست ہے کہ چین کی کیمونسٹ پارٹی صدر شی جن پنگ کو پارٹی کے "بنیادی" رہنما اور ان کے خیالات کو چین کی مستقبل کی ترقی کے رہنما اصولوں کے طور پر بیان کرتی ہے اور پارٹی کے اندر شی کی بنیادی حیثیت اور چین پر پارٹی کے مرکزی اختیار کو یقینی بناتی ہے جبکہ ان کی سیاسی سوچ، پارٹی کے اندر رہنما کردار کے طور پر مستحکم ہوئی ہے جس کے اثرات کا اِظہار آنے والے دنوں میں اندرون ملک اور عالمی سیاست پر ہو سکے گا۔