وزیراعظم صاحب ہم اپنے حلقوں میں کیسے جائیں۔لوگ ترقیاتی سکیموں کا پوچھتے ہیں۔گرمیوں میں بجلی نہیں ملتی تو سردیوں میں گیس غائب ہوجاتی ہے۔ترقیاتی اورگیس سکیموں کے وعدے پورے نہیں ہوئے۔بجلی کے یونٹس کی قیمت کم اور ٹیکسز زیادہ ہوتے ہیں۔بتایا جائے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کیوں مہنگی ہوتی ہے؟اگر یہی حالات رہے تو حلقوں میں ہم سب کا جانا مشکل ہو جائے گا۔ہم عوام کوآخر کیا جواب دیں گے۔وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں وزراء بجلی کی قیمتوں اور گیس کی عدم فراہمی پر پھٹ پڑے۔وزراء کے سوالات میںچھپے خوف اور بے یقینی نے ہال میں سناٹا پیدا کردیا۔وزیراعظم وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر اور مشیر خزانہ شوکت ترین کی جانب متوجہ ہوئے کیونکہ یہ سوالات عوام اور میڈیا کے بعد کپتان کی بہترین ٹیم کی جانب سے اُٹھائے گئے تھے مگر دونوں کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔سوال یہ ہے کہ تمام تردعووں اور پیشگی تیاری کے باوجود یہ صورتحال آخر کیوں پیدا ہوئی ؟ وہ سوالات جو عوام‘میڈیا اور اپوزیشن اُٹھارہی تھی وہ سوالات اور اعتراضات آخر کابینہ ارکان کو کیوں اُٹھانا پڑے؟ ہمیں یہ جاننے اور ماننے کہ اشد ضرورت ہے کہ کسی بھی ملک میں توانائی کا شعبہ انتہائی حساس اور ملکی خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مہنگائی اور خوشحال کی بنیاد یہی شعبہ ڈالتا ہے مگر بدقسمتی کیساتھ گزشتہ تین سالوں کے دوران بدانتظامی اور ایڈہاک ازم نے توانائی کے شعبے کو بری طرح متاثر کیا، جس کے باعث آج اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکومتی وزراء سراپا احتجاج اور حیرانگی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ہر تین ماہ بعد پیدا ہونیوالے بحران کے پیچھے ناتجربہ کاری‘اناڑی پن،بیڈ گورننس اور چند افراد کا مفادہی نظر آئے گا۔ وزارت توانائی کی غلط حکمت عملی اور آئی پی پیز کی ہٹ دھرمی ملک میں ایک اور بحران پیدا ہونے اور زرمبادلہ کے ذخائر پرمزید دباؤبڑھنے کا خدشہ پیداہوگیا ہے۔آئی پی پیز نے حکومت سے 314ارب روپے وصول کرنے کے باوجود 30یوم کا فرنس آئل سٹاک نہیں کیا۔حالیہ معاہدے کے مطابق آئی پی پیز واجبات وصول ہونے پر 21سے30یوم کا فرنس آئل سٹاک رکھنے کی پابند ہیں۔پاور ڈویژن کی طلب کی روشنی میں پی ایس او اور ریفائنریوں نے فرنس آئل تیار کیا مگرآئی پی پیز کی ہٹ دھرمی کے باعث ریفائنریوں اور پی ایس او کے پاس لاکھوں ٹن فرنس ذخیرہ ہوچکا ہے ۔ ریفائنریوں اور پی ایس او کے پاس فرنس آئل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔آئی پی پیز کی جانب سے فرنس آئل اپنے سٹاک میں نہ رکھنے کے ریفائنریوں کی پیداواری صلاحیت کم ہونے لگی ہے۔آئل ریفائنریوں اور پی ایس او نے بڑے بحران سے بچنے کیلئے وزارت توانائی کو خط تولکھ دیا ہے مگر وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر جو اپنی کمزور فیصلہ سازی کے باعث پہلے ہی مہنگی ایل این جی درآمد کرکے اپنا نام کم کر چکے ہیں وہ اب اس بحران سے بچنے کیلئے کوئی قابل قدر اقدام اُٹھاتے دکھائی نہیں دے رہے، جس کے باعث ملک میں تیل وگیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔اگر چند روز تک آئی پی پیز کو فرنس آئل اپنے سٹاک میں رکھنے کا پابند نہ کیا گیا تو پھر وزیراعظم کو تیل بحران کا مجبورا نوٹس لینا پڑے گا۔ جب وزیراعظم کسی بھی عوامی مسئلے کا نوٹس لیتے ہیں توپھر وہ معاملہ کیسے سلجھتاہے وہ آپ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ دوسری جانب 2020ء میں غیر متعقلہ تجربے کے حامل افسر کو وزیراعظم کی منظوری سے ڈی جی آئل تعینات کیا گیا۔میڈیا نے حکومت کی توجہ مبذول کروائی کہ اس اقدام سے تیل کا شعبہ بُری طرح متاثر ہوگا اور کئی اسکینڈل جنم لیں گے مگر ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی حکومت کو لے ڈوبی۔جون 2020ء میں پیٹرول کا بحران پیدا ہواجو اب ایک اسکینڈل کی شکل اختیار کرچکا ہے۔بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والی کمپنیوں کیساتھ بے قصورآئل مارکیٹنگ کمپنیاں بھی ایف آئی اے کی تحقیقات کا سامنا کررہی ہیں۔ایف آئی اے نے وزیراعظم کو پیش کی گئی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پیٹرول بحران کے بعد ایف آئی اے انکوائری کے نتیجے میں غیر قانونی طور پر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو لائسنس کا اجرا بند اور ایف آئی اے نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے اکاونٹس میں موجود ایک ارب سے زائد کی رقم منجمد کروا دیئے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر ملاوٹ اور منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات کی انکوائری بھی شروع ہوگئی۔ایف آئی اے کی جانب سے دو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کیخلاف ایف آئی آر کا اندراج کا ہوچکا جبکہ مزید کمپنیوں کیخلاف ایف ائی آر کے اندراج کیلئے تحقیقات مکمل کر لیں گئیں۔رپورٹ کی کاپی کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے دعوٰی کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال پیٹرول بحران کی انکوائری شروع ہونے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ،ملاوٹ اور غیر قانونی فروخت میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔اوگراآرڈیننس میں ترامیم کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات کی طلب، سپلائی، امپورٹ اور ایکسپورٹ کا اختیار پیٹرولیم ڈویژن سے لیکر اوگرا کو تفویض کر دیا جائے گا۔ آیف آئی اے آنے والے دنوں میں اوگرا اور پیٹرولیم ڈویژن کے مزید افسران کیخلاف تحقیقات کا سلسلہ شروع کرے گا۔اوگرا کی غلط حکمت عملی کے باعث 33 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کولائسنس جاری ہوچکے۔ زائد لائسنس جاری ہونے کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بیشتر آئل مارکیٹنگ کمپنیاں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی ہے۔جن کمپنیوں نے عبوری لائسنس حاصل کرنے کے بعد خاطر خواہ سرمایہ کاری نہیں کی ان کے لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں گے۔یہ تما م تر اقدامات اور ثمرات اپنی جگہ مگر ایک غلط فیصلے کے باعث پوری انڈسٹری بدترین بحران سے دوچار ہے ۔ ڈاکٹر شفیع آفریدی اور ریسرچ آفیسر عمران ابڑو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں مگر وزارتوں میں موجود افسران فائلوں کو ہاتھ لگانے سے بھی ہچکچار رہے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں نقصان عوام کا ہورہا ہے ۔ اب وزراء کو اس تلخ حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے، جس کی نشاندہی کرنے پر حکومت میڈیا سے سخت خائف ہے۔ اگرچہ پُلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا مگر اب بھی کچھ عقل کو ہاتھ مار لیں توکم ازکم حلقوں میں عوام کو منہ دکھانے کے قابل تو ہو ہی جائیں گے ورنہ ناتجربہ کاری سے اناڑی پن تک یہ سفر کہیں کا نہیں چھوڑا گا۔