نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ کونسل نے 2018 میںلہسن کی ایک نئی قسم دریافت کی جسے نارک G-1 لہسن کا نام دیا گیا۔اس کارہائے نمایاں کو سرانجام دینے والے سائنسدان ڈاکٹر ہمایوں خان تھے جن کا تعلق بنوں سے تھا ۔شومئی قسمت کہ وہ اس قسم کو متعارف کروانے کے کچھ ہی عرصہ بعد کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور اسی دوران انتقال فرماگئے ۔ نارک G-1 لہسن کی دریافت کا بنیادی مقصد ملک میں لہسن کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا ایک تو مقامی لہسن کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے دوسرے ہم لہسن کی درآمد پر تقریباََ 69 ارب روپے سالانہ خرچ کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی تجارتی مرکز کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ سال میں پاکستان نے 61688 ٹن لہسن برآمد کیا جس پر لگ بھگ 68.7 ملین ڈالر خرچ ہوئے ۔ جبکہ سال 2020 میں یہ اعدادوشمار 102ملین ڈالر کو چھو رہے تھے ۔ ایسے میں اگر ہم لہسن کی پیداوار کو بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو تے تو روپے کی قدر میں حالیہ گراوٹ کے بعد یہ بوجھ اس سے کہیںزیادہ ہو سکتا ہے ۔پاکستا ن اپنی ضرورت کا صرف دو تہائی لہسن پیدا کرتا ہے چنانچہ ایک تہائی پیداوار بڑھانا تو ہماری فوری ضرورت ہے۔ پاکستان میں لہسن کی سالانہ کھپت کا تخمینہ لگ بھگ ایک لاکھ تیس ہزار میٹرک ٹن ہے جبکہ ہماری مقامی پیدوار لگ بھگ80 ہزار میٹرک ٹن ہے۔ ایسے میں نارک G-1 لہسن کی دریافت نے سبھی کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی کیونکہ اس سے ناصرف درآمدی سرمایہ بچایا جا سکتا ہے بلکہ مقامی کاشتکار کو بھی خوشحال کیا جا سکتا ہے۔ اگر نارک جی ون کی پیداوار کا مقامی پیداوار سے جائزہ لیا جائے تو خاصے فرق کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔ مقامی طور پر پیدا ہونے والے لہسن کی فی ایکڑ پیداوار تقریباً 70 سے 80 من تھی جبکہ نئی قسم 200 سے 250 من فی ایکڑ پیداوار دے رہی ہے ، جو کاشتکاروں کی توقعات سے کہیں زیادہ ہے۔ نارک جی ون کو پاکستان میں لہسن کی تمام موجودہ اقسام میں بہترین قسم سمجھا جاتاہے اور اس کے ایک بلب کا وزن 250 گرام سے 400 گرام کے درمیان ہوتا ہے جبکہ مقامی طور پر تیار کیے جانے والے لہسن کے بلب کا وزن تقریباً 30 سے 50گرام ہوتا ہے۔ یہی وہ واضح وجوہات ہیں جس کی وجہ سے کاشتکاروں کی ایک بڑی تعداد اس کی کاشت میں دلچسپی لینے لگی ۔یہ ملک کے سبھی علاقوں میں قابل کاشت ہے ۔ریتلی مٹی والے علاقے اس کی زیادہ پیدوار دے سکتے ہیں ۔ مگر اس کی زیادہ توجہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے کسانوں نے لی جہاں آبپاشی کے لئے درکار پانی کی کمی کی وجہ سے زرعی پیداوار بہت کم تھی چنانچہ ایک بہتریں متبادل فصل کی صورت میں خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع خصوصی طور پر اور ملک بھر میں نارک جی ون کی کاشت بہت تیزی سے شروع ہوئی ۔اس قدر تیزی سے بڑھتی ہوئی کاشت کے لئے بیج کا مطالبہ بھی اتنا ہی زیادہ تھا۔ چنانچہ اس مطالبے کو پورا کرنے کے لئے اب تک نارک جی ون کی پیداوارصرف بیج کی غرض سے ہی ہو رہی تھی۔چونکہ ڈیمانڈ بہت زیادہ تھی اس کا فوری اثر اس کی قیمت پر پڑا اور اس کی قیمت مطالبے کے ساتھ ساتھ اُوپر جاتی گئی ۔ گذشتہ برس جس بیج کی قیمت پانچ سو روپے تھی وہ پانچ ہزار روپے تک بڑھی ۔ بات صرف یہیں پہ نہ رکی لہسن کی اس قسم کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ سال رواں کی فصل کی کاشت کے لئے یہی بیج بعد ازاں بارہ ہزار روپے فی کلو میں بھی فروخت ہوا۔ چونکہ اس بیج کی قیمت کافی زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پیداوار کا محدود ذخیرہ انسانی استعمال کے لیے کچن میں بھیجنے کے بجائے صرف کاشت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس قدر بلند قیمت گھریلو توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی دوسر ی بات یہ ہے نارک جی ون میں موجود پانی کی زیادہ مقدار بھی گھریلو صارفین کی توجہ حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔پانی کی زائد مقدار سالن کے ذائقے پر کوئی خوش کن اثرات مرتب نہیں کرتی ۔ یہی وجہ ہے کہ نارک جی ون کے کاشتکار خود بھی اس لہسن کو اپنے کچن میں استعمال نہیں کررہے۔ چنانچہ نارک جی ون پر مزید تحقیق کی گنجائش موجود ہے تاکہ اسے کچن کے استعمال کے لئے بھی پر کشش بنایا جا سکے۔ بہرحال ماہرین کا کہنا ہے کہ تازہ پیداوار کی قیمت مختلف ہے اور خشک لہسن بہت زیادہ قیمتی ہے جبکہ مناسب حالات میں ذخیرہ کرنے پر اس قسم کی شیلف لائف بھی طویل ہوتی ہے۔ آج تک نارک جی ون کی پیداوار اور منافع دونوں ہی انتہائی پر کشش تھے سو سال رواں میں اس کی کاشت ایک بہت بڑے رقبے پر ہوئی ۔ موسمی حالات بھی سودمند رہے اور اس وقت کسان نارک جی ون کی ریکارڈ پیداوار حاصل کر چکے ہیں مگر اس سارے منظر میں کسانوں یا سرمایہ کاری کرنے والوں سے غلطی یہ ہوئی کہ ایک جانب جہاں انہوں نے لالچ میں زیادہ پیسہ لگایا وہیں انہوں نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ صرف بیج کیلئے استعمال ہونے والی فصل کی اتنی بڑی پیداوار کا خریدار کون ہوگا۔آخر بیج کے تقاضے کی ایک حد تھی جو حاصل ہو گئی ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ایک خوبی ایک مصیبت کا روپ دھار چکی ہے۔ فصل تیار ہے مگر خریدار کو ئی نہیں چنانچہ نارک جی ون کی قیمتیں یکدم آسمان سے زمین پہ آگری ہیں اور اس وقت کسان صرف یہ چاہتے ہیں کہ کم ازکم ہماری لاگت تو وصول ہو ۔ اس ساری صورتحال کی حکومت کو باقائد ہ نگرانی کرنی چاہیے تھی اور اس بارے اعداو شمارکے مناسب تجزیے کے بعد کسی آگاہی مہم کا آغاز کیا جاتا یا کم از کم اس پیداوار کا رخ کسی طرح برآمد کی طرف منتقل کیا جا سکتا ۔ نارک جی ون کو مزید بہتر بنانے کیلئے سنجیدہ کائنسی کاوشوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس کے استعمال کے راستے بڑھائے جا سکیں ، گھریلو استعمال کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معیارات کی روشنی میں اس کی پیدوار برآمدات کی مدمیں ملک کیلئے کافی سود مند ثابت ہو سکتی ہے او رمستقبل میں اس قسم کے بحران سے بھی بخوبی بچا جا سکتا ہے ۔