بنک اور بنیا ایک ہی سکہ کے دورخ ہیں۔ہندو بنیا نے ہندی مسلمانوں کو سودی معیشت کا شکار کیا او ربنک نے عالم اسلام کو سودی معیشت کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔جبکہ اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ سود سے دور رہیں کیونکہ سودی معیشت اللہ اور اس کے محبوب نبی اکرمؐ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اللہ نے قرآن میں واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ جب مسلمان اللہ و رسولؐ سے رخ پھیریں گے تو اللہ و رسولؐ بھی ایسے باغی مسلمانوں سے رخ پھیر لیں گے اور نتیجتاً باغی مسلمانوں کی معیشت تنگ ہو جائے گی اور دشمن باغی اور نافرمان مسلمانوں کی صف میں ساتھ کھڑے ہوں گے۔قرآن احکام الٰہی کی کتاب ہے۔ مذہبی حکایات کی نہیں ہے لہٰذا اسلام میں کہانی اور تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ۔نیز اللہ کا فرمان ہے کہ مرضی میری ہی چلے گی خواہ کتنے ہی ٹیڑھے چلو۔اسی کی ذات غالب و کار آفریں کار رکشا وکار ساز ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا سفر درویش صفت شہنشاہ ہند اورنگزیب عالمگیرؒ کی وفات سے ہوا ۔ہندو بنیا اور برہمن دھن کا پکا ہے اور دھن کا پجاری ہے۔ ہندو نے مسلمان حکمرانوں کے دور میں کئی سیاسی و مذہبی چالیں چگیں مگر سیاسی زوال کے بعد ہندو بنیا نے مسلمانوں کو سودی قرض دے دے کر اپنا تابع بنا لیا اس طرح ہندو بنیا کی سودی پالیسی نے مسلمانوں کو اللہ و رسولؐ صرف دور ہی نہیں کیا بلکہ نافرمانی اور باغیانہ بودو باش کا عادی اور رسیا بنا دیا۔برصغیر میں مسلمانوں کی حیثیت حاکم اور محکوم کی ہے ۔ ہندو بنیا کی پالیسی یہ ہے کہ اگر حاکم اکبر اعظم کی طرح مہا بلی یعنی طاقتور ہے تو معاون بن جائو اور جب کمزور پڑ جائے تو دبوچ کر ختم کر دو۔ہندو بنیا نے اپنی مذکورہ پالیسی کے تحت تمام غیر ہندو حکمرانوں اور قوموں کو اپنے ندر مدغم کر کے اچھوت اور دلت بنا کر ختم کر دیا۔مسلمان مرہٹوں کی جنگی اور برطانوی انگریزوں کی سیاسی چالوں سے کمزور سے کمزور تر ہو گئے۔دریں تناظر میں مسلمان کو پدرم سلطان بود یاد رہا ،کسی حد تک جائیداد اور نوابی بھی قائم رہی مگر آمدنی سے زیادہ خرچ کا شوق متاثر نہ ہوا۔دریں صورت مسلمان عوام و خواص کے پاس نقدی(کرنسی) کم پڑ گئی اور جنس یعنی جائیداد اور جاگیر کے باوجود سود قرض کے اندھے کنواں میں گرتے چلے گئے ،یہ ایسا دور تھا جس میں مسلمان نے نام و ننگ نمود و نمائش رسم و رواج او اپنی نام نہاد ساکھ کے لئے اپنی نسلوں کو ہندو بنیا کا محتاج بنا دیا۔ آج پاکستان کو بھی اشرافیہ نے اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کے لئے عالمی بنکوں اور قوتوں کا اجیر بنا دیا ہے۔انفرادی قرض نسل یعنی گھربرباد کرتا ہے جبکہ قومی فرض ریاست کو برباد کرتا ہے۔ ہر دو صورت آزادی سلب ہو کر رہی جاتی ہے اور اس طرح مرضی ساہوکار کی چلتی ہے دین و وطن کی نہیں۔کوئی ریاست غریب نہیں ہوتی۔اسے نہ ختم ہونے والے سودی قرضے سے غریب بنایا جاتا۔ سیاسی زوال نے ہندی مسلمانوں کی معاشی بدحالی کا سفر تیز تر کر دیا ،مسلمان روز بروز ہندو ساہوکار بنیا کا بے دام غلام بنتا چلا گیا مگر اس وقت بلکہ ہر دور میں مسلم معاشرے کے اندر ایسے افراد اور مصلحین موجود رہے ہیں جو سود سے نجات اور نمود و نمائش سے اجتناب کے لئے کام کرتے رہے ہیں ۔تحریک پاکستان سے قبل مسلم معاشرے کو معاشی و معاشرتی اسلام کے لئے تیتو میر اور حاجی شریعت اللہ اور دیگر مصلحین کی تحریکوں نے مسلم معاشرے میں قرآن اور اسوہ رسولؐ کی اقدار کا پاس کیا جو بعدازاں مذہبی اور سیاسی بیداری کا سبب بنا اجناس سے بہتر نقدی یعنی currencyہے اور ہندو بنیا اس بات کو خوب جانتا تھا کہ بھوک میں روپیہ کام آتا ہے، اشیاء نہیں۔ اگر روپیہ(نقدی) بے قدر ہو جائے تو اشیااور جائیداد بے قدر ہو جا تی ہیں۔ مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے کہ غربت کفر تک لے جاتی ہے لہٰذا دونوں سے بچو قیام پاکستان سے قبل اور بھارت میں آج بھی‘ مسلم محلوں اور بستیوں میں ہندو بنیے کی تجارت کامیاب رہی۔ ہندوتاجر کے مقابل مسلم علاقوں میں کسی مسلمان نے دکان کھولی اور تجارت کی توہندو بنیا کا بھیانک رویہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ ہندو دکاندار نے سرمایہ داری کی بنیاد پر مدمقابل کے کاروبار اور تجارت کو ختم کرنے کے لئے قیمت خرید سے کم پر مال بیچنا شروع کر دیا اور مسلمان سرمایہ دار نہ ہونے کے باعث چھ مہینے یا سال بھر میں دکان بند کر دیتا تھا اور بعدازاں ہندو بنیا مال مرضی کی قیمت میں بیچ کر خسارہ پورا کر لیتا تھا یعنی مسلمانوں کو تجارتی طور پر پنپنے نہیں دیا گیا اور برطانوی راج بھی صلیبی انگریز نے اسی پالیسی کو اپنایا اور کارخانے اور صنعتیں ہندو علاقوں میں لگائیں تاکہ انکی ہنر مندی اور سرمایہ داری میں اضافہ ہو۔اسی طرح عالمی بینکاروں ساہوکاروں اور بنیوں نے امریکی سرمایہ داری، روسی اشتراکیت اور یورپی استعماریت کی سرپرستی میں پاکستان اور عالم اسلام کو بہر طور جکڑ رکھا ہے۔ قائد اعظم ہندو یہود اور صلیبی معاشی شکنجے کو خوب جانتے تھے لہٰذا اللہ و رسولؐ کے فرمان کے مطابق پاکستان کا معاشی نظام چلانے کے لئے SBPسٹیٹ بنک اور پاکستان کا کا قیام عمل میں لائے جس نے 75سال عالمی ساہوکاری اور بینکاری کے ظالمانہ شکنجے سے پاکستان کو بچایا مگر اب SBPعالمی مالیاتی ادارے کی استعماری جاگیر بن گیا ہے اور عالمی مالیاتی استعماری ادارہ IMFپاکستان کی جملہ مالیاتی امور کا نگران اور منتظم بن گیا۔ریاستی اداروں کی نجکاری اور رہن رکھنا سونے پہ سہاگا ہے۔ قرض بڑوں نے لیا۔ادا عوام کر رہے ہیں اور قرض کی مذکورہ سودی پالیسی نے ریاست کو جکڑ کر مجبور اور بے بس کر دیا ہے۔ عوام اس ان دیکھے قرض کی ادائیگی کب تک کر سکیں گے‘ بجٹ کا خسارہ بدنیتی اور نااہلی کا نتیجہ ہے جبکہ پاکستان کا پہلا بجٹ بھی خسارہ کا تھا ۔خسارہ پورا کرنے کے لئے ٹیکس لگانے کی اجازت مانگی تو اجازت نہ ملی اور چند مالدار پاکستانی احباب نے بجٹ کا خسارہ پورا کر دیا ۔پاکستان کا مالی پاکستانیوں پر خرچ ہونا چاہیے بینکاروں اور ہندو ساہوکاروں پر نہیں۔