معروف ہدایت کار انور کمال پاشا نے 1957ء میں سر فروش کے نام سے ایک فلم بنا ئی تھی ۔ اُس زمانے میں زبردست کامیابی ملی اور اِس کامیابی میں زیادہ تر کردار ایک مکالمے کا تھا کہ جو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ انور کمال پاشا نے اداکار سنتوش کمار اور صیبحہ خانم پر فلمایا تھا آج جب اُس مکالمے کو سن لیا جائے تو ہمارے معاشرے کی حالت زار اُسی ایک مکالمے میں مکمل ظاہر ہو جاتی ہے۔ وہ منظر قارئین کے سامنے بیان کیا جائے گا تا کہ پڑھنے والے کو پوری طرح سے سین کے مطابق مکالمے کی حقیقت کا اندازہ ہو سکے واقعہ کچھ یوں رونما ہوتا ہے کہ اداکار سنتوش کمار کہ جس کا فلم سر فروش میں عرب کے مشہور چور سہیل بن عبداللہ کا کردار ہوتا ہے ۔ وہ اپنی چوری میں بے مثال تھا لوگ اُس کا نام سن کر خوف زدہ ہو جایا کرتے تھے اور اُس سے بڑے تنگ تھے کوتوال شہر نے اُس کی گرفتاری پر ایک سو درہم کا انعام مقرر کر دیا جو آج زمانے میں لاکھوں درہم بنتا ہے ۔ سہیل بن عبداللہ کو کوتوال شہر کی حرکت پر بڑا غصہ آیا اور اُس نے کوتوال شہر کے گھر میں ڈاکہ ڈالنے کا پروگرام بنایا اور ایک رات کوتوال شہر جو کہ معروف اداکار ایم اسماعیل ہے ۔سہیل بن عبداللہ اور ایم اسماعیل کے محل نما گھر کی چھت پر کمند ڈال کر چڑھ جاتا ہے اور ایک کمرے میں چھپے انتہائی قیمتی زیورات چوری کر لیتا ہے ابھی وہ اُس چھت پر ہی ہوتا ہے کہ نماز فجر کا وقت ہو جاتا ہے اور جونہی وہ اذان کی آواز سنتا ہے تو چوری کا مال ایک پوٹلی میں باندھ کر ایک طرف رکھ دیتا ہے اور ایک طرف کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیتا ہے جونہی نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اُسے ایک طرف سے آہٹ محسوس ہوتی ہے تو سامنے سے کوتوال شہر کی بیٹی ادکار ہ صیبحہ خانم اُس کے پاس آکر ایک سوال کرتی ہے کہ تم کیسے چور ہو ’’نماز بھی پڑھتے ہو اور چوری بھی کرتے ہو تو پھر وہ جواب دیتا ہے کہ نماز فرض ہے اور چوری میرا پیشہ ہے ‘‘ یہ مکالمہ سن کر کوتوال شہر کی بیٹی سکتے میں آ جاتی ہے کہ عجیب چور ہے کہ جو دوزخ اور جنت کا عمل اکٹھے سر انجام دیتا ہے اِس مکالمے ہی کی وجہ سے فلم سر فروش کوبڑی کامیابی نصیب ہوئی تھی اس لیے کہ صرف اِسی ایک ڈائیلاگ نے ہمارے معاشرے کی حقیقت کو عیاں کر کے رکھ دیا اور آج بھی اُس طرح سے ہو رہا ہے ۔ ہمارا تاجر طبقے نے ابھی سے رمضان المبارک کی آمد سے ایک ماہ قبل کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ کرنا شروع کر دی ہیں اور اپنے بڑے بڑے گوداموں کی چینی ، چاول ، آٹے اور گھی سے بھرنا شروع کر دیا ہے تا کہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی روز مرہ کی چیزوں کی قیمتیں بڑھا کر ناجائز منافع حاصل کر کے اور اپنی بڑی بڑی تجوریوں کو کاغذ کے نوٹوں سے بھر کر عمرہ کی ادائیگی کے لئے حجاز مقدس روانہ ہو سکیں دوسری طرف سبز منڈی کے آڑھتی مافیا نے ابھی سے آلو ، سیب ، مالٹے وغیرہ سٹور کرنا شروع کر دیئے ہیں تا کہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی آج 30 روپے کلو فروخت ہونے والا آلو 120 سو روپے کلو 200 روپے کلو فروخت ہونے والا سیب 800 روپے کلو اور 120 روپے کلو فروخت ہونے والا کنوا (مالٹا) 300 روپے کلو فروخت کر کے اپنے ہی عوام کو زیادہ سے زیادہ لوٹ سکیں ۔ ان کو کوئی پوچھنے والا ہی ہوتا سرکاری اہلکاروں کی بے حسی کی وجہ یہ ہے کہ سبزی منڈی کے آڑھتوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کس بڑے اعلیٰ انتظامی افسر کے گھر میں کیا پہنچانا ہے اور وہ اعلیٰ افسر کے ڈرائیور کے ساتھ مل کر چپکے سے صاحب بہادر کی کوٹھی پر اعلیٰ سے اعلیٰ فروٹ اور سبزی دینا نہیں بھولتے اسی لئے تو کاغذی کاروائی کے لیے رمضان بازار کی خلاف ورزی کرنے پر ریڑھی والے کو زیادہ قیمت وصول کرنے پر چالان کر دیاجاتا ہے جبکہ مارکیٹ کمیٹی والے بھی اِن دنوں اپنی کرپشن میں 100 فیصد تک اضافہ کر دیتے ہیں خود ساختہ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں کی لسٹ بناکر ڈپٹی کمشنر کو پیش کی جاتی ہے ۱ سبز منڈی میں آڑھتی مافیا اپنی مرضی کی بولی دے کر سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیتا ہے اور پھر اگر اِس بولی کے دوران نمازکا وقت ہو جائے ۔تو فوراً بولی روک کر نماز پڑھنے کے لیے مسجدکا رُخ کیا جاتا ہے اور پھر نماز کے بعد اُسی وضو کے ساتھ اپنی مرضی کی بولی لگا کر ناجائز منافع خوری بھی کی جاتی ہے یہی کچھ آج ہمارے معاشرے میںہو رہا ہے۔ سرکاری ا داروںمیں سارا دن رشوت کا بازار بھی گرم ہوتا ہے اور پھر ظہر کی نماز کے وقفہ کے دوران ہمارے رشوت وصول کرنے والے سرکاری افسران اور اہلکار نماز پڑھنے سے پہلے رشوت کی رقم بھی جیب میں ڈال کر مسجد چلے جاتے ہیں اور سہیل بن عبداللہ کی طرح اپنا پیشہ بھی نہیں چھوڑتے شاید اس لیے اقبال نے کہا تھا کہ ’’ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر ‘‘ جب تک ہم اپنے آپ کوٹھیک نہیں کریں گے۱ اُس وقت تک معاشرے میں تبدیلی آہی نہیں سکتی آج ہر شخص پریشان ہے وجہ صرف یہی ہے کہ ہم خود کرپٹ ہو چکے ہیں یقین نا آئے تو اب رمضان المبارک آنے والا ہے۔ ذرا اپنی حالت ملاحظہ کر لیں سب کچھ عیاں ہو جائے گا ۔ ٭٭٭٭٭