جنرل جہانگیرکرامت کو گھر بھیجنے کے بعد نواز شریف کو ایک اور مرضی کے آرمی چیف کی تلاش تھی۔ سینارٹی لسٹ میں جنرل علی قلی خان سر فہرست تھے۔ وہ نہایت شاندارفوجی کیرئیرکے ساتھ آرمی چیف کے لیے موزوں ترین آفیسر تھے۔ نارمل حالات میں یہ تقریبا طے تھاکہ جنرل علی قلی خان ہی اگلے آرمی چیف ہوں گے لیکن جنرل جہانگیر کرامت کے وقت سے پہلے عہدہ چھوڑ دینے کے باعث حالات بدل گئے اور جنرل علی قلی خان نواز شریف کی پسندیدہ شخصیت نہ رہے ۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ دراصل نوازشریف کو چودھری نثار علی خان اور ان کے بھائی جنرل (ر) افتخار علی خان کی جانب سے جنرل علی قلی خان کے بارے میں منفی طور پر فیڈ کیا گیا۔ نواز شریف کو بتایا گیا کہ سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کے سیاسی عزائم ہو سکتے ہیں۔انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ علی قلی کو آرمی چیف لگانے کے نتیجے میں سیف اللہ فیملی اور گوہر ایوب خان کا خاندان طاقتور ہو جائے گا اور وقت پڑنے پر نیچا دکھانے کی پوزیشن میں ہو گا۔ نواز شریف کو یہ کہہ کر بھی ڈرایا گیا کہ جب جہانگیر کرامت کو ہٹایا گیا تھا تو کور کمانڈرز کانفرنس میں علی قلی خان نے ٹیک اوور کی تجویز دی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ علی قلی خان ایک موقع پر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ سیاستدان جیسے ملک چلا رہے ہیں اس سے بہتر تو ہم چلا سکتے ہیں ۔ ان تمام چیزوں کی بنیاد پر نواز شریف ڈر گئے اور علی قلی خان کو آرمی چیف نہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ بہت بعد میں نواز شریف کو پتہ چلا کہ علی قلی خان کے بارے میں پھیلائی گئی تمام باتیں غلط تھیں اور یہ کہ ان کے ملٹری سیکرٹری چودھری نثار علی خان کے بھائی جنرل افتخارعلی خان علی قلی کا پتہ کاٹ کے اپنی ذاتی پرانی لڑائی کا بدلہ لے رہے تھے۔ خیر بڑے چائو کے ساتھ جنرل مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا اور امید باندھی گئی کہ اتنے سالوں کے بعد فوج کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوں گے کیونکہ نواز شریف پہلی بار اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا رہے تھے۔ سنا ہے کہ چودھری نثار نے تقرر سے پہلے پرویز مشرف کی نواز شریف سے متعدد خفیہ ملاقاتیں بھی کرائیں جس میں پرویز مشرف نے یہی تاثر دیا کہ باس جیسے آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا آپ بس فکر ہی نہ کریں ، مرضی اور حکمرانی آپ ہی کی چلے گی۔ جنرل پرویز مشرف جونہی آرمی چیف بنے تو گویا وہ تو کوئی اور ہی پرویز مشرف تھے۔بہت شروع میں ہی نواز شریف کے ان سے تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ عہدہ سنبھالتے ہی پرویز مشرف نے اپنے اعتماد کے لوگوں کو اہم عہدوں پر لگانے کا کام کیا۔ جنرل محمود کمانڈر ٹین کور، جنرل عزیز سی جی ایس، جنرل مظفر عثمانی کور کمانڈر کراچی، اس کے علاوہ بھی کئی اہم تقرریاں انہوں نے آتے ہی کر ڈالیں ۔ نواز شریف کا ماتھا ٹھنکا، پرویز مشرف سے انہوں نے ذکر بھی کیا لیکن انہیں مطمئن کر دیا گیا۔ مطمئن ہونے والے نواز شریف کہاں تھے۔انہیں بھی ایک اہم تعیناتی اپنی مرضی سے کرکے بیلنس کرنے کا خیال آیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر نئی تقرری کے لیے انٹرویو طلب کر لیے گئے۔ یہاں پرویز مشرف شکست کھا گئے اور کوشش کے باوجود بھی اپنا آدمی نہ لگوا سکے ۔ نواز شریف نے اپنے اعتماد کے آدمی جنرل ضیاء الدین بٹ کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کر دیا۔ گاہے گاہے پرویز مشرف سے نواز شریف کے کئی اختلافات ہوتے رہے۔ ایک بار بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا واہگہ بارڈر پر جا کر استقبال کرنے سے انکارپر نواز شریف پرویز مشرف سے ناراض ہو گئے۔ ایک بار نواز شریف نے دو سینئر فوجی افسران کی برطرفی اور نجم سیٹھی کے کورٹ مارشل کی فرمائش کی ، پرویز مشرف کے انکار پر پھر اَن بن ہو گئی۔اس طرح کے کئی مسائل چلتے رہے اور پھر کارگل ہو گیا۔ کارگل جب ہو رہا تھا تو نوازشریف اور پرویز مشرف کے درمیان اس موضوع پر شاید اتنا بڑا اختلاف نہ تھا لیکن جب مشن ناکام ہو گیا تویہی سب سے بڑا اختلاف بن کے سامنے آیا۔ کوئی شکست کی ذمہ داری خود پرلینے کو تیار نہ تھا۔بہت بڑا اختلاف ہو جانے کے باوجود بھی نواز شریف اور پرویز مشرف اپنے اپنے عہدوں کو بچانے میں کامیاب رہے اور مشکل وقت کسی نہ کسی طرح ٹل ہی گیا۔ پیمانہ لبریز کرنے والا آخری قطرہ جنرل طارق پرویز کا تنازع ثابت ہواجب کور کمانڈر کوئٹہ جنرل طارق پرویز جنہیں جنرل ٹی پی بھی کہا جاتا تھا، نے نواز شریف سے خفیہ طور پر ملاقات کی۔آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو پتہ چلا تو انہوں نے نواز شریف سے جنرل ٹی پی کی برطرفی کی اجازت طلب کیا یا یوں کہیے کہ برطرفی سے متعلق آگاہ کیا۔ نواز شریف نے بادل نخواستہ خاموشی اختیار کر لی۔ مسئلہ تب ہوا جب اگلے دن کے اخبارات میں خبر لگی کہ نواز شریف سے ملاقات کرنے کی پاداش میں جنرل ٹی پی کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ اس خبر پر نواز شریف کو بہت سبکی بلکہ ہتک محسوس ہوئی ۔ انہوں نے آئی ایس پی آر سے خبر کی تردید شائع کرنے کا مطالبہ کیا۔ نواز شریف کے اصرار کے باوجود تردید شائع نہ ہوئی تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہوں نے جنرل مشرف کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔ نواز شریف نے مشرف کو کیا ہٹانا تھا انہیں خود ہی پہلے وزیر اعظم ہائوس اور پھر ملک چھوڑنا پڑ گیا۔ سوال یہ ہے کہ ان تجربات سے نواز شریف نے کیا سیکھا۔ بعد میں جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو خود انہوں نے آرمی چیف لگایا اور ان سے بھی تعلقات خراب رہے۔ جنرل باجوہ کو تو وہ اپنے کرسی چھینے جانے کی وجہ قرار دیتے رہے ۔اب ایک بار پھر وہ آرمی چیف لگانے جا رہے ہیں ، خدا خیر کرے۔