چند دنوں سے دل اداس ہے، 16 ماہ پی ڈی ایم سرکار نے جو ظلم ڈھائے سو ڈھائے، نگران حکومت آنے کے بعد دفعتاً پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے باقی ماندہ امید بھی ختم کر دی ہے۔ 1973 کا آئین ہر جمہوریت پسند کو بہت زیادہ عزیز ہے۔ جس کسی کے ذہن میں جمہوریت کا کیڑا ہے، وہ 1973 کے آئین کو ہر صورت یاد کرتا ہے اور بہت شدت سے یاد کرتا ہے، 14 اگست 1973ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین متفقہ طور پر منظور ہوچکا تھا، رواں ماہ اگست کی 14 تاریخ کو جس روز ہم 76 واں یوم آزادی منا رہے تھے، 1973 کے آئین کے پچاس سال مکمل ہوگئے، سابقہ پی ڈی ایم سرکار کے وزیراعظم شہباز شریف نے اقتدار سے رخصت ہونے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے بعد عام انتخابات ہوںگے، شہباز شریف کے اس بیان پر جو انھوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا تھا؛ پی ڈی ایم اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی، اے این پی اور دیگر نے تعجب کا اظہار کیا مگر شہباز شریف کے اس بیان کو بعدازاں حکومتی حلقوں کی جانب سے مختلف زاویوں سے پیش کیا جانے لگا، منظور وساں نے دعویٰ کیا کہ عام انتخابات فروری سے پہلے ہوتے نظر نہیں آ رہے، سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے دو قدم آگے بڑھ کر سارے ابہام توڑ دیئے اور میڈیا کے روبرو بار بار اعتراف کیا کہ انتخابات فروری میں ہوںگے۔ 9 اگست کو اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران وزیراعظم کی تقرری کا معاملہ سامنے آیا، پورا ملک ششدر ہو کر رہ گیا: جب سابق اپوزیشن لیڈر آنجناب راجہ ریاض کی مصروفیات کا تذکرہ وزیر اعظم کی زبانی ہونے لگا۔ ملک میں چونکہ انتخابات وقت پر ہوںگے یا نہیں؟ اہم موضوع تھا، لہٰذا انتخابات آئینی مدت 60 روز یا 90 روز میں ہوںگے کہ حکومت اپنے آخری 52 ویں اجلاس میں 77 کے لگ بھگ جو بل منظور کر چکی تھی، اس میں نگران حکومت کے زیر سایہ 60 اور 90 روز معمہ بنا دیئے گئے، اوپر سے نگران حکومت کو ماضی سے ہٹ کر اضافی اختیارات بھی سونپے جا چکے تھے۔ وطن عزیز میں ٹیکنوکریٹ حکومتی سیٹ اپ کے بارے میں بھی قیاس آرائیوں اور افواہوں کا بازار سرگرم تھا، اس صورتحال میں نگران وزیر اعظم کیلئے روز نئے نام سامنے آنے کے بعد تجسس کا پیدا ہونا فطری عمل تھا، وزیر اعظم کی حیثیت سے شہباز شریف جہاں سابقہ وزیراعظم کو اپنی حکومت کے 16 ماہ کے ہر طرح کے بگارڑ کا ذمہ دار قرار دینے کی کوششوں میں مگن تھے وہاں انھوں نے اعلان کیا کہ دو روز میں نگران وزیر اعظم کا نام تاریخ ساز اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض سے باہمی مشاورت کے بعد فائنل کیا جائے گا ۔ بطور وزیر اعظم شہباز شریف کے اس اعلان کے دو گھنٹوں بعد نگران وزیراعظم کے نام کا اعلان کردیا گیا، جس کے بعد سیاست پر نظر رکھنے والوں کی دل کی دھڑکنیں مزید تیز ہوگئیں کیونکہ یہ کوئی معمول کا طریقہ کار نہیں تھا، پورے ملک میں نگران وزیراعظم کا تعارف میڈیا کے ذریعے سامنے آنے لگا، اخبارات میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے خوب چرچے ہوئے لیکن دوسری جانب خیال کیا جانے لگا کہ نگران وزیراعظم اپنی کابینہ جب تشکیل دیںگے، اس سے واضح ہوگا کہ الیکشن کب ہونے ہیں؟ اس کابینہ کے اراکین کے نام اور اس کابینہ کے سائز سے اندازہ ہوسکے گا کہ الیکشن آئین کے مطابق مقررہ معیاد میں انعقاد پذیر ہوںگے یا نہیں؟ تاہم گزشتہ روز نگران وفاقی کابینہ کی تشکیل مکمل کی جاچکی ہے، اسے حسن اتفاق کہئے کہ جس وقت یہ کابینہ تشکیل دی جارہی تھی، الیکشن کمیشن نے فروری میں عام انتخابات کی تاریخ دیدی اور واضح کیا کہ مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں میں چار ماہ کا وقت صرف ہوگا، الیکشن کمیشن کے اس اعلان کے بعد مختلف سیاسی حلقوں اور وکلاء تنظیموں کے رہنماؤں کی جانب سے تشویش کا اظہارِ کیا جا رہا ہے۔ 1973 ء کے آئین کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ آئینی حدودوقیود اور اس کی پاسداری کا راستہ دکھایا جارہا ہے جس کا مقصد مادر وطن کو ہر اعتبار سے جمہوریت کی پٹری پر رہتے ہوئے مستقبل کی جانب گامزن کرنا ہے۔ اس تناظر میں بیشتر سوالات سامنے آئے ہیں۔ ہم سب کے ذہنوں میں متعدد اصولی اور بنیادی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کا ایک فیصلہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے موجود ہے، جس پر عملدرآمد ہوا نہ اس کی کسی نے پرواہ کی۔ اس طرح کرنے سے پی ڈی ایم سرکار قطعی طور پر جیتی نہیں البتہ آئینی اداروں کے فیصلوں کی نفی جمہوریت کی نفی سے زیادہ کچھ نہیں کہلا سکتی۔ پی ڈی ایم سرکار نے ایسا کر کے اپنے سیاسی معیار کو داغدار کیا اور کوچہ سیاست میں جمہوریت کے دور میں آمریت کی نئی ریت ڈالی۔ جس کا خیمازہ ادا کرنے سے وہ اس حد تک خائف ہیں کہ چئیرمن پی ٹی آئی کے پاپند سلاسل ہونے کے باوجود انتخابات کے نام سے ڈرتے ہیں حالانکہ موجودہ حالات میں پنجاب میں ن لیگ، سندھ میں پی پی پی، کے پی کے میں جے یو آئی ف، اے این پی نے کس کے خلاف انتخابی میدان میں برسرپیکار ہونا تھا، بعض سیاسی پنڈتوں کے مطابق انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک کی فضاء تبدیل ہو جائے گی۔ پی ڈی ایم کٹھ اس خوف میں مبتلا ہے، چند پنڈتوں کے خیال میں فی الوقت انتخابات میں تاخیر کا نقصان پی ڈی ایم کٹھ کے سوا کسی کو نہیں کہ تاخیر اقتدار میں واپسی کا راستہ روکے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی الیکشن کمیشن کے اعلان کی بے ڈھنگے انداز میں مخالفت بھی کر رہی ہے جبکہ حمایت ترک کرنے کی اسے جستجو نہیں۔ اس سارے سیاسی کھیل میں اس حقیقت کو بڑی دیدہ دلیری سے نظر انداز کیا جارہا ہے کہ وطن عزیز میں معاشی و اقتصادی کشمکش سماجی صورتحال اور ڈھانچے کو جس بے دردی سے ڈھا رہی ہے۔کیا نگران حکومت ان حالات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ موجودہ نامساعد معاشی و اقتصادی حالات معاشرتی سطح پر جس قسم کی غیر سیاسی افراتفری کا باعث بنیں گے۔ اس کے بارے میں نگرانوں کے پاس کوئی حکمت عملی ہوگی؟ آئندہ ماہ چونکہ صدر مملکت کی مدت پوری ہونے کے بعد چئیرمن سینٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر مملکت ہوںگے، لہذا نگرانوں کی حکومت میں سوال کھٹکتا رہے گا کہ فروری میں بھی انتخابات ہونگے یا نہیں؟ لگتا ہے: ہنوز دہلی دور است!!!