نواز شریف کے استقبال میں کتنے افراد ہوں گے اس وقت جو سب سے گرما گرم ٹاپک ہے وہ ہے کہ جب پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد جناب نواز شریف 21اکتوبر کو پاکستان آئیں گے تو پاکستان مسلم لیگ نواز کتنے افراد کو مینار پاکستان کے جلسے کے لیے اکٹھا کر سکتی ہے اس بات پہ بہت زیادہ ٹاک شو ہو رہے ہیں ۔ سننے میں آیا ہے کہ مسلم لیگ نواز نے اپنے ایم این ایز اور ایم این ایز کی ٹکٹ کے امیدواروں کو فی کس 600 افراد مینار پاکستان لانے کا ٹارگٹ دیا ہے ، اسی طرح ہر ایک ایم پی اے کو بھی 600افراد لانے کا ٹارگٹ ملا ہے اگر ہم اس بات کو دیکھیں تو پاکستان مسلم لیگ نواز پنجاب سے تقریبا دو لاکھ کے لگ بھگ افراد کو لاہور میں اکٹھا کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ازاد کشمیر اور کے پی کے سے بھی لوگ آئیں گے۔ لاہور کے مقامی امیدواروں کو زیادہ افراد کا ٹاسک ملا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز دو سے تین لاکھ کے درمیان افراد کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اگر جلسے میں 50ہزار سے لے کے ایک لاکھ افراد تک بھی آجاتے ہیں تو یہ کافی بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ اس وقت عوام کسی جلسے کو اٹینڈ کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں بہت سارے لوگ بجلی کے بلوں کی وجہ سے بپھرے ہوئے ہیں لیکن اب جو پاکستان مسلم لیگ نواز نے نیا ٹرینڈ دیا ہے اور جلسوں میں یہ تاثر دیاجا رہا ہے کہ مسلم لیگ نواز کافی لوگوں کو اکٹھا کر سکتی ہے۔ عوام میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کو اگر کہیں پہ ایک وقت کا اچھا کھانا ملے تو وہ وہاں پہ جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کسی بھی گائوں میں اپ 20دیگیں پکا لیں تو آپ ایک ہزار آدمی اکٹھا کر سکتے ہیں۔پاکستان کی سیاست میں تین مواقع ایسے ہیں کہ جب کسی جلسے میں بہت زیادہ لوگوں کی تعداد میں شرکت کی جب 1986میں بے نظیر وطن واپس آئی تھی تو ان کا استقبال بڑا ہی تاریخی تھا۔ بے نظیر دوسری بار2007میں بیرون ملک سے پاکستان آئیں تو کراچی میں ان کا استقبال بڑا ہی تاریخی تھا اور جب وہ وہاں پہ کارساز کا حادثہ ہوا تو وہ پاکستان کی تاریخ کا تقریبا سب سے بڑا ویلکم تھا۔ اسی طرح سن 2011میں جب عمران خان نے لاہور میں جلسہ کیا تو وہ بھی ایک بڑا جلسہ تھا اس دن بھی لاہور میں بہت ہی گہما گہمی تھی اور بہت سارے لوگ پہلی دفعہ کسی جلسے میں شرکت کے لیے گئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان مسلم لیگ ایک نیا ریکارڈ قائم کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ لاہور کے جلسے کے لیے 10لاکھ افراد اکٹھے کرنے کا دعوی کر رہی ہے جبکہ ا ان کے مخالفین جو کے خیال میں 40ہزار لوگ بھی بمشکل اکٹھے ہوں گے۔ بڑی اچھی ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی ہو رہا ہے بہت ساری اے سی بسیں اس دن لاہور پہنچیں گی پاکستان مسلم لیگ کے اس دن دو تین لاکھ افراد کو لاہور میں اکٹھا کر سکتی ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ ان کا ولولہ کس حد تک ہوگا ۔ 21اکتوبر کے بعد پاکستان کی سیاست میں کافی ہلچل کی امید ہے نواز شریف اور مریم نواز پاکستان مسلم لیگ میں دو ایسی شخصیات ہیں جو عوام کو اکٹھا کر سکتی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف اس وقت انتشار کا شکار ہے اس کے بہت سارے رہنما قید میں ہیں یا زیر زمین ہیں۔ الیکشن جنوری کے اخری ہفتے میں کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اکتوبر، نومبر، دسمبر اور جنوری ان چار مہینوں میں بجلی کی کھپت کافی کم ہوتی ہے تو بل میں بھی کافی کمی آئے گی تو اس وقت ہو سکتا ہے کہ عوام کا غم و غصہ کچھ کم ہو جائے لیکن اس وقت عوام بہت زیادہ ناراض ہیں ہر کوئی اپنا بجلی کا بل لئے پھرتا ہے او راٹھ ہزار سے لے کے 12ہزار تک اوسطا کے بل آ رہے ہیں۔ دوسری طرف آنے والے وقت میں یہ بھی خرچہ ہو سکتا ہے کہ سردیوں میں آٹے کی قیمت میں اضافہ ہو جائے اور ایک نیا بحران جنم لے لے کیونکہ ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ عوام سب سے زیادہ آٹے کی قیمت میں اضافے سے پریشان ہوتے ہیں۔ کیونکہ آٹے اور پیٹرول کی قیمتیں تقریبا ہر آدمی پر اثر ڈالتی ہیں۔ اس وقت دو باتیں بڑی حوصلہ افزا ہیں، ڈالر کی قیمت کم ہو رہی ہے اور پہلی بار تیل کی قیمت میں بھی کمی ہوئی ہے تو اب جس طرح عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کافی زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے تو ہو سکتا ہے کہ گورنمنٹ اس ریلیف کو عام تک ٹرانسفر کرے۔ تیل کی قیمت میں کمی سے عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ عوام کو اس بات سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے کہ اقتدار میں کون ہے۔ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں چاہے وہ پیپلز پارٹی دے یاپاکستان مسلم لیگ نواز دے یا پاکستان تحریک انصاف یا کوئی اور۔ انہیں غرض ہے کہ ان کی مشکلات کم ہوں۔ اب عوام عملی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں کہ معیشت ملک کی بہتر ہو مہنگائی میں کمی ہو بے روزگاری کا خاتمہ ہو۔ یہی وہ عوامل ہیں جو ملک کو ترقی کی راہ پہ ڈال سکتے ہیں۔ اس وقت حکومت سمگلنگ کیخلاف کافی بڑی کاروائیاں کر رہی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں مقیم جو افغان ہیں ان کو 30اکتوبر کی ڈیٹ دی گئی ہے کہ وہ اس سے پہلے پاکستان چھوڑ دیں جن لوگوں کے پاس کاغذات نہیں ہیں بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے پاکستان میں قیام پذیر ہیں وہ یکم نومبر سے پہلے پہلے پاکستان سے چلے جائیں تو یہ مسئلہ بھی پاکستان کے لیے آنے والے وقت میں کافی بڑے مسائل کھڑے کر سکتا ہے، کیونکہ کے پی کے اور افغانستان کے لوگوں کی آپس میں بہت زیادہ رشتے داریاں ہیں اور پچھلے 45سال سے افغان یہاں پہ رہ رہے ہیں۔ ان کے کافی بڑے بڑے کاروبار ہیں۔ ابھی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت کس حد تک ہے ان کو پاکستان سے بھیج سکتی ہے۔ ٭٭٭٭٭