مکرمی ! تعلیمی اداروں اور اکیڈمی آتے جاتے بچوں اور جوانوں کو دیکھ کر عجیب منظر سامنے آتا ہے. کتابوں کا بستہ اٹھانے کے لیے یا تو نوکر ساتھ ساتھ ہوتے ہیں یا پھر ماں باپ نے کندھے پر اٹھا رکھا ہوتا ہے. والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو تکلیف نہ ہو. جس کے نتیجے میں بچے اس عادت کو اپنا لیتے ہیں اور اپنا سامان اٹھانا معیوب سمجھتے ہیں۔ کھانے سے پہلے یا کھانا کھا چکنے کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، اپنی ہی استعمال شدہ پلیٹیں اٹھانا یا گلاس صاف کرنا تو کوسوں دور کی بات ہے واپس کچن میں رکھ دینا بھی محال سمجھتے ہیں۔ ماں آئے گی اور یہ سارے کام کرے گی۔ بچوں کو مفید اور کارآمد شہری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پرائمری لیول تک بچوں کے لیے صرف دو کتابیں ہونی چاہیے. ایک تعلیم القرآن اور دوسری کتاب جس میں اردو، انگریزی اور ریاضی کے بنیادی تصورات کے ساتھ جنرل نالج شامل کیا جائے. اخلاق سے عاری نصاب کا بے مقصد بوجھ بالکل نکال دیا جائے. ایسا نصاب تعلیم شامل کیا جائے جو بچوں میں ادب، احترام، محنت، جدوجہد اور مسلسل آگے بڑھنے کا جزبہ پیدا کرے. انگریزی مضمون کو مشکل اور فہم فراست سے بالا تر سمجھتے ہوئے اکثر بچے تعلیم چھوڑ جاتے ہیں. انگریزی میں بے مقصد قصے کہانیوں کی بجائے روز مرہ بول چال کا بنیادی تصور بچوں کو سکھایا جائے. بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا کرنے والے نصاب کو نکال کر عام فہم نصاب شامل کیا جائے تاکہ بچے تعلیم کو ادھورا چھوڑنے کی بجائے لگن اور شوق سے تعلیم حاصل کریں. ایسا نصاب تعلیم شامل کیا جائے جو بچوں کے اندر اخلاقی قدروں کو پروان چڑھا سکے اور بچے اچھائی اور برائی کی پہچان کر کے زندگی گزار سکیں۔(عبدالرزاق باجوہ. لاہور)