مکرمی! ہمارے سیاستدانوں کی عمومی روش ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں رہتے ہوئے تو عوام کو بہلائے رکھتے ہیں مگر حکومت سے باہر آتے ہی مفاد عامہ کا خیال ستانے لگتا ہے۔وطن عزیز میں عوام کی اکثریت جمہوریت سے مایوس دکھائی دیتی ہے اس کا سبب ہمارے سیاست دانوں کا یہی طرز عمل ہے۔ جو ٹھوس عملی اقدامات سے گریزاں فقط بلند و بانگ نعروں اور وعدوں پر اکتفا کرتے ہیں۔نوجوان طبقے کو نظر انداز کر کے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔پی ٹی آئی نے نوجوان طبقہ کو سیاست میں متحرک تو کیا لیکن تعلیم کے ساتھ معقول طرز عمل کا حامل ہونا بھی ضروری ہے۔پی ٹی آئی سے وابستہ نوجوان نفرت اور تقسیم کو سیاست سمجھ بیٹھے۔اب بلاول بھٹو نے روایتی سیاست سے ہٹ کر سیاسی لائن اختیار کی ہے۔وہ نوجوان طبقہ کے فعال اور موثر کردار کے خواہش مند ہیں۔بہت ضروری ہے بزرگ سیاستدان نوجوان طبقہ کو آگے آنے کا موقع دیں اور نوجوان بھی دوسروں کی بات سنے،اس کے اچھے اور مثبت پہلوؤں کو پہچانے تب کسی نتیجہ پر پہنچ کر کوئی قدم اٹھائے۔اس طرز عمل سے نو مئی جیسے دلخراش واقعات سے مکمل طور پر بچا جاسکتا ہے۔ جب اختلافی مسائل میں دوسروں کی بات سننے اور دوسروں کے نقطہء نظر کو سمجھنے کی عادت، احساس ذمہ داری،موثر اور باوقارانداز گفتگو،اپنی بات کو دلیل کے ساتھ ثابت کرنے کی عادتیں پیدا ہونگی تو سیاست میں خود بخود بہتری آ جائے گی، مایوسی ختم ہوگی۔ بات سماجی تبدیلی کی ہو یا کسی بڑے انقلاب کی نوجوان طبقے کے کردار کو نظر انداز کرنا صریحا'' نا انصافی ہے۔تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کی جائے تو ہم اس حقیقت سے آشنا ہوں گے کہ ترقی کیلئے انحصار ہمیشہ نوجوان طبقہ پر ہی کرنا ہوگا۔ چوتھی بار کی خواہش سے مسائل حل نہیں ہونگے۔اگر ہم پاکستان کو واقعی ایک بہتر ریاست بنانا چاہتے ہیں تو نوجوانوں کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کا مکمل موقع دینا ہی ہوگا۔ ( سلمان احمد قریشی)