نگران وزیر اعظم جناب انوار الحق کاکڑ نے اپنی نگران کابینہ کا اعلان کردیا ہے۔ جمعرات کو نگران کابینہ نے صدر عارف علوی کے سامنے حلف اٹھایا۔اس کابینہ میں 16وزیر اور 9مشیر شامل ہیں۔اگر اس نگران کابینہ کا سرسری سا جائزہ لیں تو اس کابینہ میں کافی بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ کابینہ میں اکثریت ٹیکنو کریٹ کی ہے۔ وزارت خزانہ کا قلمدان سٹیٹ بینک کی سابق گورنر شمشاد اختر صاحبہ کے پاس ہے وزارت خارجہ کی ذمہ داری جناب جلیل عباس جیلانی کے پاس ہے جو متعدد ملکوں میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔وزارت داخلہ پر بلوچستان کے سابق وزیر جناب سرفراز بگٹی کے پاس ہے۔لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر ڈجناب انور علی حیدر کر دفاع کا محکمہ دیا گیا ہے۔معروف صحافی مرتضی سولنگی کو وزرت اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا ہے۔عمر سیف کے پاس آئی ٹی کا محکمہ ہے۔احمد عرفان اسلم کے پاس قانون کی وزارت ہے۔ جناب اینق احمد کے پاس وزارت مذہبی امور ہے۔ڈاکٹر ندیم جان صحت کے وزیر ہونگے۔جمال شاہ کے پاس وزارت قومی ورثہ ااور ثقافت ہے ،احد چیمہ مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ۔ نگران کابینہ میں ایک ا ہم نام کشمیری رہنما جناب یا سین ملک کی اہلیہ مثال ملک کا ہے۔ وہ انسانی حقوق کی مشیر ہیں۔ نامور مہر تعلیم سیدہ عارفہ زہرہ تعلیم اور قومی یکجہتی کی مشیر خاص ہونگی۔ معروف شاعر وصی شاہ کو مشیر برائے سیاحت کا قلمدان دیا گیا ہے ۔ اس کابینہ میں ٹیکنو کریٹ لوگ بھی ہیں اور سیاسی لوگ بھی۔ بلوچستان سے جناب سرفراز بگٹی انوار الحق کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ احد چیمہ نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ وہ عمران خان کی حکومت میں قید بھی رہے ہیں۔ اس حکومت میں جو لوگ شامل ہیں ان کے پروفائل سے نہیں لگتا کہ یہ حکومت صرف تین ماہ رہے گی۔قیاس تو یہ کیا جارہا ہے کہ یہ حکومت وہ سب کچھ کرے گی جو اسکی ذمہ داری نہیں ہے اور انتخابات بھی شاید تین ماہ میں نہیں کرا سکے گی۔ دوسری طرف اکانومی کی بہتری کا بڑا شور ہے دیکھتے ہیں یہ حکومت کتنے عرصے میں ڈالر اور تیل کی اڑان کو روکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ایک بیان کے مطابق نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں دسمبر کے وسط تک ہو جائیں گی تو پھر الیکشن کی حتمی تاریخ کا اعلان ہوگا۔جو کہ فروری یا مارچ کی کوئی تاریخ ہو سکتی ہے۔سیاسی طلاطم بھی عروج پر ہے۔ جناب شاہ محمود قریشی اور اسد عمر گرفتار ہونے والے نئے نام ہیں۔ صدر عارف علوی کے ایک ٹویٹ نے ایک الگ طوفان برپا کردیا ہے۔ شطرنج کی بساط پر چالیں بڑی تیزی سے چلی جا رہی ہیں۔ یہ سال کرکٹ کے ورلڈ کپ کا سال ہے۔ 2023 کا کرکٹ کا ورلڈ کپ انڈیا میں ہوگا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ شروع ہونے پہلے پاکستان کی جو جگ ہنسائی ساری دنیا میں کرائی ہے۔ وہ اب ورلڈ کپ شروع ہونے تک جاری رہے گی۔ ہمارے اس بورڈ نے ایک وڈیو ریلیز کی ہے جس میں کرکٹ کے قومی کھلاڑیوں کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اس شاندار وڈیو میں 1992 کے ورلڈ کپ کے فاتح کپتان کو جس بھونڈے طریقے سے وڈیو خارج کیا گیا ہے۔ اس کی گونج بی بی سی۔ کرکٹ اسٹریلیا۔الجزیرہ اور کرکٹ کی دوسری معروف ویب سائٹ پر سنائی دی ہے۔ اگر اس وڈیو میں کپتان کو شامل کرلیا جاتا تو شاید کوئی اسکا نوٹس ناں لیتا مگر اسکو غائب کرنے سے سب کی نظر اس وڈیو پر گئی ہے۔ ذکا اشرف نے جناب ذولفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی تصاویر اس وڈیو میں شامل کرکے پارٹی سے وفاداری کا ثبوت تو دے دیا مگر بورڈ کی جگ ہنسائی ساری دنیا میں کرا دی ہے۔ اب یہ عذر تراشا جارہا ہے کہ وڈیو کی ٹائمینگ کی کمی کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔ اس وڈیو کی مثال شادی کی اس مووی کی ہے جس میں سے دلہا غائب ہو اور باجے والے ٹائٹل پر ہوں۔ اس وقت ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ 2023 الیکشن کا سال ہے یا نہیں۔ دوسری طرف ہمارے ہمسایہ ملک کے ایک سائنسدان کی بدولت 2023 کو ملت کا سال قرار دیا گیا ہے۔ اس وقت جب ہمارا ملک پانی کی کمی کا شکار ہے اور ہم گندم اور چاول کی فصل کاشت کر رہے ہیں جو 12000 لیٹر سے 16000 لیٹر پانی ایک من اناج کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ دوسری طرف باجرہ (ملٹ) میں ایک من اناج کے لئے صرف 400 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ ہم شوگر میں پہلے نمبر پر پہنچ چکے ہیں اور شوگر کا سب سے بڑا سبب چینی، چاول اور گندم کا آٹا ہے۔ انڈیا میں اس وقت باجرے پر بہت ریسرچ ہو رہی ہے جو ایک اچھا اور سستا اناج ہے۔باجرہ شوگر کے علاج میں بہت مفید اناج ہے۔ ہمارے پورے ملک میں کوئی اس بات کو نہیں سمجھ رہا کہ ہم کس طرح سے شوگر کے عفریت کے جال میں پھنس چکے ہیں۔اگر ہم زراعت میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان فصلوں پر دھیان دینا ہوگا جو کم پانی استعمال کرتی ہیں۔ ہم کو سوچنا پڑے گا کہ ہم کھاد اور کرم کش ادویات کے استعمال سے جو زائد فصل حاصل کر رہے ہیں ان کا مفاد زیادہ ہے۔ ہمارا صحت کا نظام جو اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس وقت ہم جگر، گردے، دل اور شوگر کی دوائی پر جتنے پیسے استعمال کرہے ہیں۔اس کا نہ کوئی ڈیٹا ہے اور نہ کبھی کسی نے اس پر غور کیا ہے۔ ایک صحت مند قوم ہی ترقی کی اس دوڑ میں زمانے کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ ہم جو شوگر کے سلسلہ میں پچاس فی صد کے قریب پہنچ سکتے ہیںتو کیسے دنیا کا مقابلہ کریں گے۔ہم کھاد اور کرم کش ادویات کا ستعمال ترک کر کے نامیاتی طریقے سے کاشت کاری کریں گے تو کوئی امید بن سکتی ہے کہ ہم تباہی سے بچ جائیں۔ اچھا دودھ، اچھا اناج اور صحت مند پھل اور سبزیاں ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ گوشت کی تو ہم بات ہی نہیں کر رہے۔وہ تو عید سے عید تک کا سلسلہ رہ گیا ہے۔