عام انتخابات کے نتائج میں تاخیر پر سیاسی اور عوامی حلقوں میں شکوک و شبہات کا اظہارروایتی نہیں ،حقیقی ہیں ۔ماضی میں آر ٹی ایس اب ای ایم ایس پر بہت سارے سوالات ۔حقیقت میں یہ سسٹم پر سوالات ہیں ۔جن ہاتھوں میں سسٹم ہے ،وہ محفوظ نہیں ۔الیکشن ہوا ،خوب ہوا،عوام نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا ۔اس میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں ۔فاعتبروا یااولی الابصاراے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے : ’’قوم کو انتشار اورپولرائزیشن کی سیاست سے آگے بڑھنے کے لیے مستحکم ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ انتشار اور پولرائزیشن 250 ملین آبادی والے ترقی پسند ملک کے لیے موزوں نہیں۔ قوم کو انتشار اور پولرائزیشن کی سیاست سے آگے بڑھنے کے لیے مستحکم ہاتھوں اور ایک شفا بخش رابطے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام نے آئین پاکستان پر اپنا مشترکہ اعتماد ظاہر کیا ۔ اب تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ سیاسی پختگی اور اتحاد کے ساتھ اس کا جواب دیں‘‘۔ سپہ سالار نے یقیناً لاجواب الفاظ کے ساتھ اچھے خیالات کا اظہار کیا ۔مگر اسے عملی جامہ کون پہنائے گا ؟طاقت کس کے پاس؟قوت کا مرکز کون؟عوامی فیصلے کو تبدیلی کرنے کے کئی نقصانات ہوتے ہیں ۔شاید کوئی اس جانب غور کر ے ۔ سپہ سالار نے بڑے واضح الفاظ میں کہا :ہم اس قومی سنگ میل سے آگے بڑھے ہیں، ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آج ملک کہاں کھڑا ہے ؟ باقی اقوام میں ہمارا صحیح مقام کہاں ہونا چاہیے۔ اسٹبلشمنٹ سے لے کر سیاسی پارٹیوں کے سربراہان تک سبھی کو سپہ سالار کی بات پر غورکرنا چاہیے ۔1971ء میں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کے خوفناک نتائج سے کون آگاہ نہیں ؟مگر اسے بھول کر پھر سے 10 سے 15 فیصد سیٹیں جیتنے کے بعدفتح کا اعلان چہ معنٰی دارد؟ فافن چیئرپرسن کا کہنا ہے: شفافیت پولنگ اسٹیشن پر قائم رہی لیکن آر او کے دفتر پر شفافیت پر سمجھوتا ہوا، 16 لاکھ بیلٹ پیپرز مسترد ہوئے، 25 حلقوں میں مسترد ووٹوں کا مارجن جیت کے مارجن سے زیادہ تھا۔ فافن کی رپورٹ نے الیکشن کی شفافیت کے سبھی پول کھول دیئے ۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر کا کہنا ہے : پاکستان میں انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات پر تشویش ہے۔برطانوی وزیر دفاع ڈیوڈ کیمرون نے انتخابات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : تمام جماعتوں کو باضابطہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی اور کچھ سیاسی رہنمائوں کو حصہ لینے سے روکنے کیلئے قانونی طریقہ کار کا استعمال کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ (یو این) کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بھی موبائل سروسز کی بندش پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔دوسری جانب بڑے ٹرن آئوٹ کو یورپی یونین نے خوش آئند قراردیدیا۔ الیکشن 2024 ء میں کئی اہم حلقوں میں بڑے اپ سیٹس دیکھنے میں آئے ہیں۔میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن ،مولانا احمد لدھیانوی ،فیصل صالح حیات ،جاوید لطیف ،شیخ رشید ،شیخ روحیل اصغر ،سراج الحق ،چوہدری نثارعلی خان ،بلاول بھٹو زرداری، امیر مقام، جہانگیر خان ترین،خواجہ سعد رفیق جیسے بڑے برج الٹ گئے ۔الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق این اے 55 راولپنڈی فور میں سابق صدر ضیا الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق بھی کھڑے تھے، جنہیں صرف 25 ووٹ ملے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر خان نے بڑے کھلے دل سے سب کو آفر کی ہے کہ آئیں اور ملکی تقدیر بدلنے کے لیے کام کریں ۔ایک دوسرے کے منڈیٹ کو تسلیم کریں ۔ انتخابی مہم کی تلخیوں سے قطع نظر سیاسی جماعتوں کو گنجائش نکالنا ہو گی،سیاست میں بات چیت کے دروازے کبھی بھی بند نہیں ہوتے ۔وفاقی حکومت کی تشکیل کے لیے اس وقت کسی سیاسی جماعت کے پاس اکثریت نہیں ہے، قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لیے 169 ووٹوں کی ضرورت پڑے گی، پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کسی کے پاس 169 ووٹ نہیں ہیں، مسلم لیگ (ن)، پی پی اور متحدہ ملکر وفاق میں سادہ اکثریت حاصل کر سکتی ہیں۔ اب تک کی نمبر گیم پرنظرڈالی جائے تو سابق پی ڈی ایم حکومت میں شامل جماعتیں،ایک بار پھر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں ۔اس وقت پی ٹی آئی کے دعوے کے مطابق 170ارکان اسمبلی موجود ہیں ۔ اگر یہ ارکان متحد رہیں تواسلام آباد میں حکومت بنا سکتے ہیں ۔دوسری جانب وزارت عظمی کے منصب پر اتفاق رائے حاصل کرنا بہت بڑا ایشو ہے، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں اس منصب کے لیے امیدوار ہیں، دوسرا ہم ایشو صدر کے لیے مشترکہ امیدوار کا چناؤ ہو گا، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے وجود میں آتے ہی صدر مملکت کے منصب کے لئے الیکشن کرانا ہوگا، اس سے قبل سپیکر اور ڈپٹی سپیکر اور قائد ایوان کا انتخاب بھی ہونا ہے، سیاسی لین دین کرنا پڑے گا۔پی ٹی آئی کو ملکی مفاد اور اپنے کارکنان کی بہتری کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنے پر سوچنا چاہیے ۔کیونکہ بلاول بھٹو کا دامن ابھی تک کرپشن کی آلائشوں سے بچا ہو ا ہے۔پیپلز پارٹی کا صدر،پی ٹی آئی وزیر اعظم ،ڈپٹی وزیر اعظم پیپلز پارٹی۔سپیکر ایم کیو ایم ۔ڈپٹی سپیکر پی ٹی آئی ۔چیئرمین سینٹ ایم کیو ایم ۔ڈپٹی چیئرمین سینٹ پی ٹی آئی۔پنجاب کا وزیر اعلیٰ پی ٹی آئی ،گورنرپنجاب پیپلز پارٹی ۔بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی ،گورنر پی ٹی آئی ۔سندھ کا گورنر ایم کیو ایم ۔19بیس کے نیچے اوپر سے اس طرح کی ایڈجسٹمنٹ کی گنجائش موجود ہے ۔یاد رکھیں !اب بھی عمران خاں کی’’ نکی جئی ہاں ‘‘ سیاسی منظر نامہ تبدیل کر سکتی ہے ۔