قائداعظمؒ کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے صدر، ’’قائد ملّت ‘‘ لیاقت علی خان کی 67 ویں برسی کے دوسرے دِن (17 اکتوبر کو) سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر کے "Production Order"کی تعمیل میں ، کرپشن کے مختلف مقدمات میں ملوث ، پاکستان مسلم لیگ ؔ(ن ) کے صدر ، سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں قائد ِ حزب اختلاف ، ملزم ؔمیاں شہباز شریف کو ایوان سے ، خطاب کا موقع ملا اور اُسی روز اُنہیں "N.A.B" والے گرفتار کر کے اپنے ساتھ لاہور لے گئے تھے ۔ گویا قومی اسمبلی سے ملزم شہباز شریف کا خطاب "Guest Speaker"( مہمان مقرر) کا تھا۔ اپنے خطاب میں ملزم نے قائدِ حزبِ اختلاف کی حیثیت سے اپنی بے گناہی کے بارے میں ایک گھنٹہ اور 30 منٹ خطاب کِیا اور سب سے اہم بات یہ کہ اُنہوں نے کہا کہ ’’ میرے خلاف مقدمے بنانے / چلانے اور مجھے سزا دِلوانے کے لئے وزیراعظم عمران خان کی حکومت اور قومی احتساب بیورو نے "Unholy Alliance"کر رکھا ہے! ‘‘ ۔ 

 معزز قارئین!۔عوام و خواص کے لئے ہندوئوں کے تہوار ۔ ہولی ؔ اور انگریزی الفاظ "Hloly" اور "Unholy" کا فرق بیان کرنا ضروری ہے ۔ ہندو قوم ، قدیم دَور میں اپنے کسی دیوتا کے ہاتھوں ، ایک راکشسنی ( چڑیل ) کی ہلاکت کی یاد میں ہر سال 21 /22 مارچ کو ہولی ؔ(Holi) مناتی ہے ۔ اُس دِن لوگ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں ۔ 11 نومبر 2015ء کو ( اُن دِنوں ) وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے کراچی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ہندوئوں کے اجتماع میں کہا تھاکہ ’’ مَیں چاہتا ہُوں کہ ، مجھ پر بھی رنگ پھینکا جائے ، کیونکہ یہ رنگ محبت کی علامت ہے! ‘‘۔ کیا کِیا جائے کہ اُس کے بعد ، وزیراعظم نواز شریف نے خُود کو بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی لیکن، اُن کی سیاست بد رنگ ؔہوگئی۔ 

انگریزی لفظ "Holy" کے معنی ہیں ۔ ’’ مقدس ، متبرک ، با حُرمت ، اخلاقی یا روحانی طور پر بلند مرتبت ‘‘ ۔ مقدّس اور متبرک شہر کو "Holy City" کہا جاتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ  ؑ ، حضرت مریم  ؑ،حضرت یوسف ( نجّار )۔ حضرت یوحنّا اور دوسرے برگزیدہ خاندانوں کو "Holy Family" کہا جاتا ہے ۔ ملزم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں "Unholy Alliance"کی ترکیب استعمال کی ہے۔ جس کے معنی ہیں ۔ ’’ ناپاک ، پلید ، غیر مقدّس اور غیر متبرک ، معاہدہ ، اقرار ، میثاق اور مشترکہ مفادات پر مبنی تعلق یا رشتہ ‘‘۔ وطن عزیز کی سیاسی جماعتوں میں مقدّس ، پاک کے علاوہ ناپاک اور غیر مقدّس میثاق / معاہدے ہوتے رہے / رہتے ہیں ۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ایک دوسرے کے روایتی دشمنوں ، سابق وزرائے اعظم ، مرحومہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے 14 مئی 2006ء کو ، لندن میں "Charter of Democracy" (میثاق جمہوریت) پر دستخط کئے تھے تو، اُس میثاق ، معاہدے اور مشترکہ مفادات پرمبنی تعلق اور رشتے کو بھی، اُن کے سیاسی مخالفین نے بھی "Unholy Alliance" قرار دِیا تھا۔ محترمہ کے قتل کے بعد ، اُن کے سیاسی وارث اور شوہرِ نامدار آصف زرداری صاحب اور میاں نواز شریف اور دوسرے سیاستدانوں سے بھی اِسی طرح کے کئی میثاق اور معاہدے ہُوئے جنہیں عوام و خواص کی طرف سے ’’ مُک مُکا‘‘ کا نام دِیا گیا۔ جب بھی کوئی مُک مُکا ہُوا تو ’’شاعرِ سیاست ‘‘ نے کوئی نہ کوئی نظم ضرور لکھی۔ ایک نظم کے تین شعر ہیں …

ہوگیا شرمندۂ تعبیر، خوابِ مُک مُکا!

مسند ِ زرّیں پہ ، بیٹھے ہیں ، جناب مُک مُکا!

…O…

آفتابِ مُک مُکا اور ماہتاب مُک مُکا!

دونوں نے ، مل کر اُتارا ہے ، حجاب ِ مُک مُکا!

…O…

ہر کوئی چھوٹا بڑا ہے ، ہم رکابِ مُک مُکا!

جِس کو دیکھو، کامران و کامیابِ مُک مُکا!

معزز قارئین! ۔17 اکتوبر ہی کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ نے ’’پاکپتن میں دربار کی وقف زمین کو نجی ملکیت میں دینے سے متعلق کیس ‘‘ کی سماعت کے دَوران سابق وزیراعظم ، میاںنواز شریف اور دیگر فریقین کو دوبارہ نوٹسز جاری کرتے ہُوئے فریقین کے وُکلاء کو ایک ہفتے کی مہلت دے دِی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے پوچھا کہ ’’ جن لوگوں کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں کیاوہ سب لوگ حاضر ہیں ؟ تو، وکیل نے کہا کہ ’’ جناب ِ والا! سب لوگ تو نہیں آئے لیکن، عدالت سے باہر آٹھ ہزار لوگ بسوں میں بیٹھے ہیں !‘‘۔ اِس پر چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ’’ ہمارے پاس اتنی جگہ نہیں ، سب اپنے اپنے وکیل مقرر کریں ، ہم نے اِس کیس میں نواز شریف کو بھی نوٹس بھجوایا ہے !‘‘۔ 

 18 اکتوبر کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے صفحہ اوّل پر شائع خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’ سپریم کورٹ نے پاکپتن دربار اراضی کیس کا از خُود نوٹس 2015ء میں لِیا تھا۔ زمینوں کا معاملہ 1969ء سے چل رہا ہے ، جب مقدمات عدالتوں میں زیر التواء تھے تو، میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے 1986ء میں پاکپتن دربار کی اراضی مزار کے گدّی نشین دیوان صاحب ( مودود مسعود چشتی) کے نام منتقل کرنے کا "Notification" جاری کردِیا تھا۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ’’ سمری میں وزیراعلیٰ نواز شریف کو بتایا گیا تھا کہ آپ کو اِس طرح کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار نہیںہے !‘‘۔ دیوان صاحب کو زمین کا مالک کیا بنایا گیا؟ کہ اُنہوں نے ، تین دِن میں سب کچھ بیچ دِیا؟‘‘۔ 

معزز قارئین! ۔پاکپتن میں آسودۂ خاک ، چشتیہ سِلسلہ کے ولی اور پنجابی کے پہلے شاعر فرید اُلدّین مسعود المعروف بابا فرید شکر گنج  ؒکی زندگی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ’’ آپ ؒ ہندوستان میں خاندانِ غُلاماں کے بادشاہ سُلطان غیاث اُلدّین بلبن (1266–1286ء ) کے داماد تھے لیکن ، آپ نے اپنے سُسر بادشاہ سے کوئی مراعات حاصل نہیں کی تھیں۔ بابا جیؒ کی اہلیۂ محترمہ ؒنے بھی اپنے درویش شوہر کے ساتھ سادگی سے زندگی گزار دی۔ آج کے دَور میں میرا اور آپ کا ۔ ہم سب کا واسطہ مرحوم وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دامادؔ ۔ آصف علی زرداری اور نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن ( ر) محمد صفدر سے ہے۔ کمال یہ ہے کہ جنابِ زرداری نے اپنی ہمشیرہ فریال تالپورؔ کو ’’ مادرِ مِلّت ثانی‘‘ مشہور کر رکھا ہے اور کیپٹن ( ر) محمد صفدر نے اپنی ’’خُوش دامن‘‘ بیگم کلثوم نواز کو بھی یہی خطاب دے دِیا تھا۔ 

  بابا فرید شکر گنج  ؒ نے اپنے کلام میں مسلمانوں اور عام انسانوں کی راہنمائی کے لئے بہت کچھ کہا اور لِکھا۔ سکھوں کے پانچویں گرو ۔ گرو انگد دیو جی نے بابا فرید شکر گنج  ؒ کا کلام سِکھوں کی مقدس کتاب ’’ گرنتھ صاحب‘‘ میں شامل کرلِیا تھا۔ پاکستان کے سماجی اور سیاسی حالات پر بابا فرید شکر گنج  ؒ نے بہت پہلے بہت کچھ کہا تھا ۔ مَیں ، پاکستان کے حکمران طبقہ کی رہنمائی کے لئے بابا جی ؒ کا صِرف ایک دوہا پیش کر رہا ہُوں فرماتے ہیں کہ …

فریدا !جے تُوں عقل لطیف ،کالے لِکھ نہ لیکھ!

آپنے گریوان میں ،سِر نِیواں کر دیکھ!

یعنی۔ ’’ اے فرید !۔ اگر تو باریک بین ، عقل رکھتا ہے تو سیاہ ’’ لیکھ‘‘ (تحریریں ) نہ لِکھ بلکہ اپنے گریبان میں سر نیچا کر کے دیکھ‘‘۔ مَیں تو حالات ِ حاضرہ پر بابا فرید شکر گنج  ؒ کی ایک ’’ملنگنی ‘‘ کے جذبات کی ترجمان اپنے دوست  ’’شاعرِ سیاست‘‘ کی ایک نظم کے دو بند آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہُوں …

قومی خزانہ لُٹّ کے لَے گئے ، اُستاداں دے ،چنّڈے!

دو دِن ماہیؔ ، پھیرا پائوندا ، سَیچر ڈے تے، سنّڈے!

گھر وِچ، بُک بھر آٹا ، کوئی نہ، کِیویں پکاواں ،منّڈے!

شکّر گنج جیؒ !۔ تُہاڈی ملنگنی ، شکّر کِیویں ، وَنّڈے؟

…O…

مار دے نیں ، یم راج ؔدے چیلے ، خُود کُش ،حملہ آور!

دُوجے پاسے ، ڈاکو ، پُلسئیے ، اِک دُوجے تو ں ، جا بر!

عِزّت ،جان ، بچاون لئی ، مَیں جاواں کیہڑی ، کھنّڈے؟

شکّر گنج جیؒ !۔ تُہاڈی ملنگنی ، شکّر کِیویں ، وَنّڈے؟