یہ دوبھائیوں پاکستان کے صدیق اور بھارتی پنجاب کے حبیب کی75برسوں کی جدائی اور ملاپ قصہ ہے جن کی عمرکاوافرحصہ فرقت میں کٹ چکی ہے ۔ہجر کی طویل عمرکاٹنے کے بعد یہ چند اورمختصرلمحات کے وصال کی ایک کہانی ہے ۔یہ دکھ بھری کہانی ان بچھڑے ہوئے دوبھائیوں کی ہے جوہندوستان کے دوپہاڑ ہونے اورقیام پاکستان کے بعد 13جنوری 2021جمعرات کو پہلی بارکرتارپورپاکستان میں آن ملے ہیں۔ہجرت کرنے والوں سے زیادہ اسے کون سمجھ سکتا ہے کہ دراصل اپنوں کی جدائی دل پر پڑنے والی ایسی بھاری ضرب ہوتی ہے جوانسان کو توڑ کررکھ دیتی ہے ۔ حبیب کہتاہے کہ پھول والا میں اگرچہ سکھ کیمونٹی سے وابستہ سب میرا خیال رکھتے ہیں۔ مگربھائی کے زندہ اوران سے رابطہ اورپھر بالمشافہ ملاقات کے بعد اب دل کرتا ہے کہ پاکستان میںپوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کے ساتھ کھیل کر کچآخری وقت گزار لوں کیونکہ بھارت میں میرااپناکوئی نہیں۔وہ کہتاہے کہ زندگی کی آخری سانسیں میں اورمیرابھائی اکھٹے گزار لیں تو شاید ماں باپ، بہن بھائیوں سے بچھڑنے کا دکھ کچھ کم ہو سکے اورجب میں مروں تو میری تدفین میرے اپنے کروائیں۔مجھ بوڑھے سے کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ دو وقت کی روٹی مجھے صدیق دے دیں گے۔ بس مجھے اور کیا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ دکھ بھری زندگی میں میری موت بھی دکھ بھری ہو۔دونوں اس وقت بچھڑ گئے تھے جب جالندھر سے افراتفری میں ان کا خاندان پاکستان روانہ ہوا۔ ان کے والد ہلاک ہو گئے۔ صدیق اپنی بہن کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے اورمرورزمانہ کے ساتھ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد کے چک 255 کے رہائشی ہوگئے۔ حبیب والدہ کے ساتھ وہیں رہ گئے جن کا بعد میں انتقال ہو گیا۔یہ سب کیسے ہوا انھیں آج بھی پوری طرح یاد نہیں۔ لیکن تقریباً75 سال بعد دونوں بھائیوں کی کرتارپور کے ذریعے ملاقات ایسی ان گنت کہانیوں میں سے ہے جن کا آغاز تقسیم سے ہوا: آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی دونوں بھائیوں کے درمیان کئی برسوں بعد پہلا رابطہ دو سال قبل ہوا تھا۔ دو سال سے کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ دونوں بھائی آپس میں ویڈیو کال نہ کرتے ہوں۔ محمد صدیق موبائل فون استعمال نہیں کر سکتے مگر ان کے بچے اور گاؤں کے لوگ اس معاملے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔اسی طرح محمد حبیب بھی موبائل فون استعمال نہیں کرتے مگر ان کے سکھ دوست ان کی مدد کرتے ہیں۔ محمد حبیب ایک سکھ خاندان کے پاس قیام پذیر ہیں۔محمد صدیق کو اپنے خاندان سے بچھڑنے کی کہانی اچھے سے یاد ہے۔ اس وقت ان کی عمر کوئی 10 سے 12 سال تھی جبکہ محمد حبیب کو ایسا کچھ بھی یاد نہیں ہے۔ ماسوائے اپنے ماں، باپ، بہن بھائیوں کے نام اور اب وہ جس علاقے میں مقیم ہیں۔ وہاں کے لوگوں سے سنی ہوئی باتوں کے۔ اس وقت ان کی عمر کوئی ڈیڑھ دو سال تھی۔محمد صدیق بتاتے ہیں کہ ہمارا گاؤں جگرواں، جالندھر میں تھااورمیرے والد زمیندار تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے کھیتوں میں بہت خربوزہ لگتا تھا۔ مجھے اپنی والدہ بھی یاد ہیں۔ انھیں یاد ہے کہ ان کی والدہ ان کے چھوٹے بھائی محمد حبیب کو لے کر پھول والا اپنے میکے گئی تھیں جو آج بھی پھول والا کہلاتا ہے اور انڈیا کے ضلع بھٹنڈہ میں واقع ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے میکے جانے کے بعد ہمارے گاؤں پر حملہ ہوگیا تھا۔ لوگ افراتفری کے عالم میں علاقہ چھوڑ کر منتقل ہورہے تھے۔ سب کا رخ پاکستان کی طرف تھا۔ ہر کوئی اپنی جان بچانے کی کوشش میں مصروف تھا۔مجھے یاد ہے کہ میں اپنے والد اور بہن کے ساتھ تھا۔ والد ہنگاموں میں کیسے ہلاک ہوئے مجھے نہیں پتا چلا۔ ہم کسی نہ کسی طرح بہن بھائی فیصل آباد کے مہاجر کیمپ پہنچ گئے تھے۔محمد صدیق کہتے ہیں کہ فیصل آباد کے مہاجر کیمپ میں میری بہن بھی بیمار ہو کر ہلاک ہو گئی تھیں۔ ان ہی دنوں پتا نہیں کیسے میرے تایا مجھے تلاش کرتے ہوئے فیصل آباد کے مہاجر کیمپ پہنچے۔جس کے بعد ہم لوگ فیصل آباد کے مختلف علاقوں میں رہے۔ پھر ہمیں چک 255 میں زمنیں الاٹ ہو گئیں جس کے بعد ہم اس گاؤں منتقل ہو گئے۔ محمد حبیب کہتے ہیں کہ میرا اس گاؤں اور علاقے میں تو کوئی نہیں ہے۔ مجھے علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ جب فسادات شروع ہوئے تو میں اور ماں اپنے میکے ہی میں پھنس گئے تھے۔ اس ہی دوران تقسیم مکمل ہو گئی۔ پاکستان اور انڈیا بن گیا تو اطلاعات ملیں کہ والد، بہن سب قتل ہو گئے ہیں، بھائی کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا تھا۔میری والدہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکیں۔ پہلے ان کا دماغی توازن خراب ہوا اور پھر وہ دنیا چھوڑ کر چلی گئیں۔ اس طرح میکے کے لوگ بھی پاکستان چلے گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے بچپن سے اب تک صرف اپنے سکھ دوست ہی دیکھے ہیں۔ ان ہی کے پاس رہتا ہوں۔ ان ہی کے پاس بڑا ہوا ہوں۔محمدحبیب نے شادی نہیں کی، گھر نہیں بسا یاوہ کہتاہے کہ میرے سردار دوست اور پھول والا کے لوگ ہی میرا سب کچھ ہیں۔ کیونکہ انہوں ہی نے مجھے میرے بھائی سے ملوایا ہے۔ محمد حبیب کو سب لوگ سکا کے نام سے جانتے ہیں ان کا اصل نام پورے علاقے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے اوراس کا کوئی راشن کارڈ وغیرہ نہیں بنا ہے ۔کرتارپور راہداری کھل چکی ہے تو اس راستے سے کوشش کرتے ہیں کہ بچھڑے ہوئے بھائی آپس میں مل جائیں۔ کم از کم ان کی ایک ملاقات تو ہو جائے۔حبیب 10جنوری کو کرتارپور میں داخل ہوئے تو محمد صدیق اپنے اہل و عیال اور پورے پنڈ کے ہمراہ وہاں پر موجود تھے۔محمد صدیق اپنے بھائی کے لیے تحفے میں کپڑے وغیرہ لے کر گیا تھاجبکہ حبیب بھی اپنے بھائی پوتوں اورپوتیوں کے لیے کپڑے لایا تھا۔ جب دونوں بھائی آپس میںملے توروتے رہے۔ اپنے ماں باپ کو یاد کرتے رہے۔ صدیق کہہ رہا ہے کہ جب میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ آجائو زندگی کے باقی لمحات پاکستان میں اکٹھے گزارتے ہیں توحبیب نے اپنی رضامندی کابرملااظہار کرتے ہوئے اپناسر صدیق کے کندھے پر رکھ دیا۔