وقت بڑی تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے،ِِِِ انسان نادان ہے کہ جس کی سمجھ میں یہ نقطہ نہیں آسکا کہ ہم جوں جوں بڑے ہوتے ہیں اتنا ہی موت کے قریب ہو جاتے ہیں لیکن ہم کتنے نادان ہیں کہ اپنی زندگی کا ایک سال کم ہونے پر خوشی مناتے ہیں اور اپنی سالگرہ منا کر بڑے خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہماری خام خیالی ہے اِس دنیا کا ایک نظام ہے کہ کتنی بھی بڑی شخصیت اِس دنیا سے چلی جائے تو پھر بھی قدرت کے نظام میں رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اِس دنیا میں بڑے حسین اور طاقت ور لوگ آئے اور وہ وقت کی تیز رفتاری کی نظر ہو کر خاک میں خاک ہو ئے۔ حسن بھی ایک دھوکا ہے حضرت اقبال نے حسن کی حقیقت کتنے خوب صورت انداز میں بیان کر دی کہ حسن بھی آخر ایک روز وقت کے تیز دھارے میں آکر اپنی رعنائی اور خوب صورتی کھو بیٹھتا ہے۔ خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی قدرت کے نظام اور قانون نے قیامت تک رہنا ہے اللہ تعالیٰ اِس دنیا میں انسان کو طاقت اقتدار اور حسن دے کر آزماتا ہے کہ میرا یہ بندہ اِس دنیا میں آکر اپنی طاقت اور جوانی کے زور پر میرے بندوں کے ساتھ کس طرح پیش آتا ہے جوانی کے صرف 20 برس ہیں 18 سال سے شروع ہو کر 38 سال تک زیادہ سے زیادہ 40 سال اور پھر انسان کی جوانی کو زوال آجاتا ہے۔ بڑے بڑے رستم زماں جونہی 40 سال کی عمر میں پہنچتے ہیں تو پھر یہ میلہ چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اِسی میں عزت ہوتی ہے اب 20 سال کا عرصہ ایسے رخصت ہو جاتا ہے کہ جیسے تازہ جھونکا ہوا کا آیا اور پھر آگے نکل گیا۔ رستم زماں غلام محمد عرف گاما پہلوان کا نام کس نے نہیں سنا اپنے وقت کا ایک نامور شہ زور کہ جس نے 25 برس کی عمر میں رستم مغرب (یورپ) زبکسو کو لندن جا کر 1910 ء میں شکست دے کر رستم زماں کا ٹائیل حاصل کیا تھا۔ پہلی کشتی دو گھنٹے جاری رہی جبکہ رات ہو گئی پھر ایک ہفتہ اور گاماں جی اور زبکسو کی کشتی ہوئی جس میں گاما جی نے صرف پانچ منٹ میں چت کر دیا یہ ٹائیل حاصل کرنے کے بعد گاماں پہلوان نے پوری دنیا کے پہلوانوں کو اپنے ساتھ کشتی لڑنے کا چیلنج دے دیا لیکن کوئی بھی گاما پہلوان کے سامنے نہ آسکا اور سب نے اْسے رستم زماں تسلیم کر لیا پھر گاما پہلوان 1947ء کے بعد امر تسر سے ہجرت کر کے لاہور آگیا اْس کے ساتھ اْن کا بھائی رستم ہندامام بخش خان اور خاندان کے دیگر افراد بھی ساتھ تھے۔ موہنی روڈ پر رہنے کے لیے گھر دیا گیا جبکہ راوی پار کامران کی بارہ دری کے ساتھ حکومت نے گاما پہلوان کو اکھاڑے کے لیے جگہ دی یہ دوریش منش انسان بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنی زندگی کے دن بسر کرتا رہا پھر یوں ہوا کہ گاماں پہلوان بھی وقت کے تیز دھارے کا مقابلہ نہ کر سکا اور بوڑھا ہو کر بیمار ہو گیا۔ میو ہسپتال میں داخل ہوا اور پھر ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘گاماں پہلوان کی علالت کا سن کر صدر ایواب نے دو لاکھ روپے کا چیک گاما پہلوان کے لیے بھیجا جو گورنر پنجاب امیر محمد خان کے ملٹری سیکرٹری لے کر میو ہسپتال پہنچے تو سامنے ہڈیوں کا ڈھیر بیڈ پر پڑا تھا جبکہ صحافت اور خطابت کے رستم زماں آغا شورش کاشمیری بھی اْس وقت وہاں موجود تھے جو گاما پہلوان کی عیادت کرنے آئے ہوئے تھے تو اْنہوں نے جب یہ دیکھا کہ رستم زماں چیک وصول کرنے کے لیے ہاتھ تک نہیں اْٹھا سکتے اور وہ چیک اْن کے بھتیجے بھولو پہلوان نے وصول کیا تو آغا شورش کاشمیر ی نے اْسی وقت یہ شعر کہا تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہوا آپ کا حسن شباب ہنس کے بولا وہ صنم شان خدا تھی میں نہ تھا اور پھر ایک ہفتہ بعد گاما پہلوان بھی موت کا شکار بن کر اپنی شہ زوری کی ایک طویل داستان چھوڑ گیا اب ایک اور شخصیت جو شوبز سے وابستہ رہے اور پاکستان فلم انڈسٹری میں جنگجو ہیرو مشہور ہوئے جن کا اصل نام شاہ زمان خان آفریدی اور فلمی نام لالہ سدھیر تھا اِن کا والد اسلم خان آفریدی یکی دروازے میں رہا کرتے تھے اور حکومت برطانیہ کے دور میں اْن کو پھانسی دی گئی لالہ سدھیر جو کبھی فلموں کی جان ہوا کرتے تھے حقیقی زندگی میں بھی بڑے جی دار اور بہادر انسان تھے اپنی ایک فلم ساحل کے سین میں شیرنی کے ساتھ اصلی لڑائی لرتے ہوئے زخمی بھی ہوئے تھے اسی طرح عجب خان آفریدی پر 1967ء میں بنائی گئی فلم عجب خان میں بھی لازوال کردار ادا کیا عجب خان نے 1925ء میں کوہاٹ چھاونی پر حملہ کر کے کیپٹن لینگرڈا کی بیوی کو اْٹھا لیا تھا اور درہ آدم خیل علاقہ غیر میں جا کر روپوش ہو گیا تھا بعد میں انگریزوں نے ایک بڑی جنگ کر کے انگریز عورت کو برآمد کیا تھا لالہ سدھیر نے 35 سال فلم انڈسٹری پر راج کیا لیکن آخری فلم اِن داتا کے بعد بوڑھے ہو کر فلم نگری چھوڑ دی اورآخر میں فردوس جمال کے اصرار پر پی ٹی وی پر اپنا آخری انٹرویو دینے کے کچھ عرصہ بعد فوت ہو گئے چونکہ اصل حقیقت یہی ہے کہ آپ جتنی بھی شہرت حاصل کر لیں جتنی طاقت اور حسن حاصل کر لیں آخر وقت کے دھارے کا شکار ہو کر فنا کے گھاٹ اتر جا ئیں گے۔