برطانوی نشریاتی ادارے کی جاری کردہ ایک ڈاکیومنٹری فلم مین آج سے کوئی بیس برس قبل یعنی سال 2002 ء میں بھارتی ریاست گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات کو مودی کی کارروائی قرار دے کرحقائق سامنے لانے پر مودی حکومت آپے سے باہر ہوگئی اوراس عالمی نشریاتی ادارے کو کچا چبانے کے در پے ہو گئی ۔ریاستی دہشت گردی کے متعلق یہ سچائی مودی حکومت اوربھارتی انتہا پسندوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور مودی پر دو اقساط پر مشتمل سلسلہ وار سیریز کا اجراء کرنے پرادارہ زیرعتاب آگیا۔ برطانوی نشریاتی ادارہ سیریزکے اجراء کے ساتھ ہی زیرعتاب آگیا ہے۔اس رپورٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر، بھارتی مسلمانوں، گجرات قتل عام، ہندو انتہا پسندی اور دیگر عوامل کا جائزہ لیا گیا۔رپورٹ میں مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں سے روا سلوک بارے متواتر الزامات لگائے گئے۔ یہ سلسلہ وار کہانی الزامات کے پس پردہ حقائق کی تحقیقات کرے گی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مقصد بھارتی بڑی مذہبی اقلیت سے سلوک، انتہاء پسند ہندوؤں کے مسلم قتل بارے سچ کا کھوج لگانا ہے۔ نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ سیریز کا مقصد مودی کا ہندو انتہاء پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگ سے تعلق، بھارتیہ جنتا پارٹی میں ابھرنے کا جائزہ لینا ہے۔ مودی کا مقبوضہ جموں و کشمیر پر شب خون مارنا اوربھارت میںشہریت قانون کی جانچ ہے۔ ڈاکیومنٹری فلم میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اگر کسی نے غلطی سے بھی یہ کہاکہ گجرات کے ان مسلم کش فسادات میں مودی بھی ملوث تھے تو اس پر آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔اب جب کہ مودی کے خوفناک چہرے کو بے نقاب کر دیا تو مودی کی ہدایات پر پہلے ہندوستان میں ڈاکیومنٹری کے نشرکرنے پر پابندی لگا دی گئی، پھر جلد ہی انکم ٹیکس والوں نے ممبئی اور دہلی آفس کے دروازوں پر دستک دے دی۔ جوایک باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ اب بھارت کے سنگھ پریوار سے لے کر بی جے پی تک سب اس معاملے کو ہندوستان کی سالمیت پر حملہ قرار دے رہے ہیں، جب کہ لندن اور واشنگٹن کے اخبار اس کو آزاد صحافت پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے خلاف اٹھائے گئے جارحانہ اقدامات کے باعث اب حکومتی سطح پر لندن اور نئی دہلی کے مابین تلخیاں پیدا ہو گئیں! یہاں یہ واضح رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارہ برطانوی نظام کا حصہ ہے اورعالمی سطح کے حساس مسائل برطانوی نظام کی مرضی کے بغیر نہیں اٹھا سکتا ۔ گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات بھی ایک انتہائی حساس معاملہ ہیں،اسی لئے مدت طویل گزرجانے کے باوجود یہ ڈاکیومنٹری کی گئی ہے۔ جب سے مودی اقتدار میں آئے ہیں، تب سے تادم تحریرمودی پوری مغربی دنیا کی آنکھوں کے تارا بنے ہوئے ہیں کیونکہ مغربی ممالک چین کے مقابلے کیلئے چین سے کام لینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس دوران یہ پہلا موقع ہے کہ جب مغرب کے ایک انتہائی اہم ملک برطانیہ کے ساتھ مودی کے تعلقات تلخ ہو گئے ہیں۔ برطانیہ اوربھارت کے تعلقات انتہائی خوشگوار تھے۔ برطانیہ میں پہلی بار رِشی سونک نامی بھارتی نژاد ہندو وزیر اعظم بنے۔آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں نے اس بات پر بغلیں بجائیں تھیں۔ رشی اور مودی آپس میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانے اور تعلقات پروان چڑھنے کی باتیں کر رہے تھے۔ اس وقت نہ صرف برطانیہ بلکہ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک کے تعلقات مودی سرکار سے بہت خوشگوار تھے۔ چین اور بھارت کے درمیان مقبوضہ جموںوکشمیر کے صوبے لداخ سرحد پر تلواریں کھنچنے کے بعد مغرب یہی تصور کرتا تھا کہ عالمی معاملات میں اب ہندوستان مغرب کا اتحادی ہے۔ توسوال یہ ہے کہ ایسے خوشگوار حالات میں برطانیہ کو مودی کو چھیڑنے کی کیا ضرورت آن پڑی ! دراصل برطانوی نشریاتی ادارے کا معیار رہا ہے کہ وہ اکثر بے لاگ اورغیر جانبداری کے ساتھ حقائق طشت از بام کرتا رہتا ہے اپنے اسی معیار کو زندہ رکھنے کے لئے گجرات کے مسلم کش فسادات میں مودی کومجرم قرار دیا۔واضح رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارہ سامعین و ناظرین کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا نشریاتی ادارہ ہے جس کے صرف برطانیہ میں ملازمین کی تعداد 26 ہزار ہے اور اس کا سالانہ میزانیہ 4 ارب برطانوی پاؤنڈ (7.9 ارب امریکی ڈالر) سے زیادہ ہے۔1922ء میںکے قائم کردہ اس ادارے کو بعد ازاں شاہی پروانہ جاری کیا گیا اور 1927ء میں یہ ریاست کی ملکیت بن گیا۔ ادارہ ٹیلی وژن، ریڈیو اور انٹرنیٹ پر پروگرام اور معلوماتی خدمات پیش کرتا ہے۔ اس کا ہدف ’’عالمی سطح پراطلاعات کی فراہمی‘‘ہے۔ادارہ ٹرسٹ کے زیر انتظام چلایا جاتا ہے اور اپنے منشور کے مطابق ''سیاسی و اشتہاری اثرات سے آزاد ہے اور صرف اپنے ناظرین و سامعین کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ ادارہ انگریزی سمیت دنیا بھر کی 33 زبانوں میں پروگرام نشر کرتا ہے جن میں اردو بھی شامل ہے۔ اردو میں ریڈیو کی نشریات کے علاوہ ایک ویب سائٹ بھی شامل ہے جو تحریری اردو کی اولین ویب سائٹس میں سے ایک ہے۔جون 1920ء کو کمپنی کا پہلا پروگرام مارکونی وائرلیس ٹیلیگراف کمپنی سے نشر کیا گیا۔ اس پروگرام کو ڈیلی میل کے لارڈ نارتھ کلف نے مالی تعاون دیا تھا۔ یہ نشریہ عوام کو خوب بھایا اور برطانیہ کی ریڈیو کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوا۔جبکہ1923ء آتے آتے کمپنی کو بے پناہ مقبولیت ملی مگر مالی انتظام کچھ سست پڑ گیا اور اقتصادی مسائل سے دو چار ہوا۔ جنوری 1927ء کو ریتھ پہلے جنرل ڈائیریکٹر بنے۔ نئی کمپنی کا نیا اعلان بھی جاری ہوا۔ اس وقت ریڈیو صرف روایتی انداز میں خبریں شائع ہوتی تھی تاہم سامعین کچھ اور پروگرام کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ ریتھ اس زمانے میں کے جنرل مینیجر تھے ۔ ان کا مقصدعوام کے لیے معلومات اور جانکاری کے تمام شعبہ ہائے جات میں ترقی کرنا اور حتی الامکان کوشش کرنا، مقصد حاصل کرنا اور اعلیٰ ترین معیار کر برقرار رکھنا۔ریتھ کا ایک بڑا کارنامہ ریڈیو کو امریکی اسٹائل کی قید سے آزاد کرانا اور برطانوی ریڈیو کو اپنا رنگ ڈھنگ عطا کرنا ہے۔