2013 کے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو کل ووٹوں کا محض 1.54 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ریاست کے وزیر اعلیٰ سی ایم مانک سرکار ایک سادہ آدمی لگ رہے تھے اور انہوں نے ایماندار اور مخلص ہونے کی مضبوط ساکھ بنائی تھی۔ انہیں شورش کے ایک مشکل مرحلے کے دوران ریاست کی قیادت کرنے اور امن قائم کرنے کا سہرا بھی دیا گیاتھا۔ یہ نظریاتی سپیکٹرم کے دو مخالف سروں دائیں اور بائیں بازو کی جنگ تھی۔ ڈیٹا پر کام کرتے ہوئے سنگھ اور اس کی پارٹی نے ویژولائزیشن ٹولز بنانے پر توجہ مرکوز کی ، جس کی مدد سے انہوں نے نقشوں پر ڈیٹا پلاٹ کرنے اور بار گرافس اور چارٹس جیسے دیگر گرافیکل فارمیٹس تشکیل دی۔ ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک موبائل ایپ تیار کرنے کے لیے بھی کام کیا جو ڈیٹا کو پارٹی رہنماؤں کے لیے آسان بناتا تھا۔ یہ بھی معلو م ہوا کہ صوبہ کے قبائلی کمیونسٹ حکومت سے نالاں ہیں۔ بس اس ناراضگی اور پھر ڈیٹا کی بھر مار کا ایک ایسا مجموعہ ہاتھ آگیا ، جس نے کمیونسٹوں کو زچ کر دیا اور بی جے پی کا ووٹ بینک ایک فی صد سے 36فیصد پہنچ گیا۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پاس پہلے ہی راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے کیڈر کی طاقت حاصل ہے۔ آر ایس ایس نے ملک بھر میں پنا پرمکھوںیعنی ووٹر لسٹ کے ایک صفحہ کے انچارج تعینات کئے ہیں۔ ایک پنا پرمکھ ووٹر لسٹ کے ایک صفحے پر درج تمام ووٹروں کے درمیان رسائی اور مہم کا ذمہ دار ہوتا ہے، اور جو اوسطاً ساٹھ ناموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ایک بار جب کسی پارٹی نے ووٹروں کی ذاتوں اور مذاہب کو انتخابی فہرست میں ان کے ناموں کے ساتھ کمپیوٹر کے سافٹ وئیر میں درج کرادیا، تو اگلا مرحلہ ان کے فون نمبر حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا بروکرز کے پاس دستیاب رہتے ہیں، جنہوں نے ممکنہ طور پر اسے ٹیلی کام کمپنیوں کے نچلے درجے کے ملازمین یا سم کارڈ ڈیلرز سے حاصل کئے ہوتے ہیں۔ بھارت میں اس وقت 535ملین واٹس ایپ صارفین ہیں۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کے برعکس بھارت میں دیہاتوں کا سفر کرتے ان کو احساس ہوا کہ ووٹروں کا خیال ہے کہ سیاسی واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے سے انہیں جیسے کسی قسم کی اندرونی معلومات یا پاور کے محور تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔چونکہ اس گروپ میں چند معتبر افراد بھی ہوتے ہیں، ان کو لگتا ہے کہ وہ ان کے قریب ہوگئے ہیں اور جیسے وہ کسی معتبر ذریعے سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ اگر انہیں نہرو-گاندھی خاندان کے تعلیمی پس منظر یا شہریت قانون کے بارے میں کس طرح کی غلط بیانی موبائل پر ملتی ہے، تو وہ اسکو دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ 2 ستمبر 2018 کو، ایک ٹویٹر صارف نے ایک غریب بھکاری کی ویڈیو ٹویٹ کی ، جس میں لکھا کہ اس کو مسلمانوں نے پیٹا ہے۔ اداکارہ کویتا مترا نے 1.98 لاکھ فالوورز کے ساتھ اسکو فارورڈ کرکے اعلان کیا کہ جس شخص کی پٹائی کی جارہی ہے وہ ناگا سادھو سنیاسی ہے، جو ہندوئوں کے ایک طبقہ کیلئے نہایت ہی متبرک ہوتے ہیں۔اس کے بعد تو سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر افواہوں کا بازار گرم ہوگیا۔ ایک دن کے بعد تھانے کے ایس ایچ او اور دہرادون کے ایس ایس پی نے واضح کیا کہ یہ شخص ناگا سادھو نہیں تھا بلکہ ایک عادی نشہ باز تھا ، جس نے ایک ہندو عورت کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اور اس عورت کے بھائی اور اس کے دوست نے اسکی پٹائی کی۔اس پورے واقعے میں کوئی بھی مسلمان ملوث نہیں تھا۔ مگر اس ویڈیو نے تب تک اپنا کام کر دیا تھا۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ علاقائی پارٹیوں جن کا ذات پات پر مبنی ووٹ بینک ہوتا ہے کو شکست دینے کیلئے، بی جے پی نے ایک ہندو ووٹ بینک کو تیار کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس کیلئے بابری مسجد ، رام مندر کو بار بار یاد دلانا اور یہ پیغام دینا کہ رام مند ر کو ایک مغل جنرل میر باقی نے 1528 میں توڑ کر مسجد بنائی تھی۔ کتاب کے مطابق بی جے پی نے اپنے آپ کو ایک ایسی پارٹی میں ڈھالا ہے جو ہندو مقاصدکی آبیاری کرتی ہے اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہے اور اپوزیشن ان کی خوشامد اور پذیرائی کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ کوئی حادثاتی نعرہ نہیں ہے، بلکہ بی جے پی کا برانڈ ہے۔ 2017 کے اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے نتائج، جہاں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا کیے بغیر 400 میں سے 325 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔موجودہ انتخابات میں بھی پارٹی نے ایک ہی مسلم امیدوار کو کیرالا سے کھڑا کیا ہے اور وہ بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے بی جے پی کو اپنا ہندو ووٹ بینک برقرار رکھنا ہے، کیونکہ پولرائزیشن میں اضافے کی وجہ سے ہی پارٹی کو انتخابی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔مسلمانوں کے علاوہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کو بھی دشمنوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور وزیر اعظم مودی نے خود ان کے لئے اربن نکسل اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ غریبوں کے لیے یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ سابق حکومتوں کی بدعنوانیوںکی وجہ سے غریب ہیں، اور بی جے پی نے نوٹ بندی کے ذریعے کالے دھن کے ذخیرہ اندوزوں کو فیصلہ کن دھچکا پہنچایا۔ قصہ مختصر کہ بی جے پی کو معلوم ہے کہ مثبت ایجنڈا پر وہ انتخابات جیت نہیں سکتی ہے۔ مگر اس کے سامنے مشکل ہے کہ دو اہم ایشوز یعنی گائے اور پاکستان کو وہ 2014اور 2019میں بھنا چکی ہے ۔ اب لے دے کے 2024کیلئے مسلمان بچا ہے۔ ابھی تک آس تھی کہ شاید اس بار بی جے پی ترقی اور مثبت ایجنڈاکو لیکر میدان میں اترے گی، کیونکہ مسلمان والا ایشو حا ل ہی میں کرناٹک کے صوبائی انتخابات میں پٹ گیا تھا،جہاں ٹیپو سلطان سے لیکر حجاب وغیرہ کو ایشو بنایا گیا تھا ۔ جب مودی نے کئی انتہا پسند لیڈروں کو اس بار ٹکٹ نہیں دیے ، تو لگتا تھا خلیجی مسلم ممالک کے ساتھ اپنے رشتوں کی وجہ سے وہ اپنی اور اپنی پارٹی کی شبہہ کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں ۔ مگر ابھی راجستھان میں جس طرح کی زبان انہوں نے خود استعمال کی اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی، تو یہ طے ہوگیا کہ 2024کے ترقی یافتہ بھارت کا یہ الیکشن پولرائزیشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہی لڑا جائیگا۔ اس سے یہ بھی صاف ہو جاتا ہے کہ ابھی تک جن علاقوں میں پولنگ ہوئی ہے، وہ ان کے توقعات کے برعکس ہوئی ہے۔ اسلئے اب ان کو لگتا ہے کہ ہندو ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ہی ان سے ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں۔ ورنہ بی جے پی کے انتخابی منشور کے نعرہ مودی کی گارنٹی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔