شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے 6 مزدوروں کو قتل کر دیا گیا، ڈی پی او روحان زیب خان نے اس واقعہ کو دہشت گردی قرار دیا ، مقتولین ڈیرہ غازی خان کے علاقے چھابریں زریں اور پیر عادل سے تعلق رکھتے ہیں، اس سے پہلے تربت بلوچستان میںایک ماہ کے دوران دو واقعات میں دہشت گردوںنے شجاع آباد اور مظفر گڑھ کے مزدوروں کو بیدردی سے قتل کردیاتھا مگر آج تک کوئی قاتل نہ گرفتار ہوا اور نہ ہی لواحقین کی اشک شوئی کی گئی۔ موجودہ واقعہ بھی دہشت گردی کا واقعہ ہے کہ میران شاہ سے تعلق رکھنے والے صحافی نے ایک امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں بتایا کہ ہلاک ہونے والے تمام افراد کو نامعلوم مسلح افراد پیر کی شب اغوا کر کے لے گئے تھے جبکہ منگل کی صبح ان کی لاشیں ملیں،جونہی یہ خبر وسیب میں پہنچی توپورے وسیب میں کہرام برپا ہو گیا، یہ ستم بھی دیکھئے کہ وسیب کے شہر ڈیرہ غازی خان کے سرائیکیوں نے وزیرستان کی زرتاج گل کو ایم این اے بنا دیا جبکہ وزیرستان میں مہمانوں سے جو سلوک کیا گیا وہ لفظوں میں بیان کرنے کے قابل نہیں ۔ ۃوسیب کا نوحہ کتنا المناک ہے کہ کبھی بلوچستان سے لاشیں آ جاتی ہیں اور کبھی وزیرستان سے اور ایک بات یہ ہے کہ بیدردی سے قتل کئے جانے والے افراد کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے کہ وسیب میں روزگار نہیں ، گھروں میں جب نوبت فاقوں پر آتی ہے تو نوجوان دو وقت کی روٹی کے لیے دوسرے صوبوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں قتل کر دئیے جاتے ہیں ۔ وزیرستان میں قتل ہونے والے افراد کے بارے میں ڈیرہ غازی خان سے ملازم حسین نے بتایا کہ ان مزدوروں میں سے تین ان کے رشتہ دار تھے ،ان کی عمریں 16 سال سے 25 سال کے درمیان تھیں، ملازم حسین پیشے کے اعتبار سے ہیئر ڈریسر ہیں اور ان کے تینوں رشتہ دار ان سے چھوٹے تھے،انہوں نے بتایا کہ شاہد کی شادی کوئی دس روز پہلے ہوئی تھی، شادی کے بعد وہ میر علی چلے گئے تھے، یہ ان کی دوسری شادی تھی کیونکہ ان کی پہلی بیوی فوت ہو گئی تھی، شاہد کے تین بچے ہیں۔ ان کے بھائی بھی حجام ہیں اور وہ بھی مختلف علاقوں میں کام کرتے ہیں۔ ملازم حسین نے بتایا کہ میر علی جانے سے پہلے شادی کے وقت شاہد سے بات چیت ہوئی تھی لیکن اس کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا تھا،ان سے جب پوچھا کہ کیا ان کو کوئی خطرہ یا دھمکی وغیرہ بھی دی گئی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اور نہ ہی کبھی ایسا کوئی ذکر ہوا تھا، وہ تو بے ضرر لوگ تھے، ان کا کوئی اپنا کاروبار بھی نہیں تھا کہ اپنی کوئی دکان یا سیلون،بلکہ وہ دوسرے بندے کی دکان پر کاریگر کے طور پر کام کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے رشتہ دار اور خاندان کے دیگر افرادانتہائی غریب ہیں،یہاں کوئی مناسب کام نہیں تھا اس لیے وہ شمالی وزیرستان چلے گئے تھے، ان میں بیشتر نوجوان غیر شادی شدہ تھے۔ ڈیرہ غازی خان میں سیاستدان سردار بھی ہیں ، تمندار بھی ہیں اور جاگیر دار بھی ہیں مگر انہی وسیب دشمنوں نے وسیب کی ترقی نہیں ہونے دی اور تعلیمی ادارے بھی قائم نہیں ہونے دئیے ، صنعتی ترقی کے بھی یہ دشمن ہیں، صرف ووٹوں کے لیے آجاتے ہیں اور بے شرمی کی بات یہ ہے کہ بلوچستان سے سالہا سال سے غریب سرائیکی مزدوروں کی لاشیں آ رہی ہیں یہ لوگ تعزیت کرنا تک گوارا نہیں کرتے۔ وسیب کے لوگ کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں؟ ملک کے حالات یہ ہیں کہ بد امنی ، دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، پاکستان کی مقتدر قوتوں کو وسیب کے لیے صوبے اور تمام پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے سوچنا ہوگا ، اقتدار اور کرسی کی جنگ بند ہونی چاہئے، ملک اور قوم کی بہتری کیلئے سوچنا ہوگا۔ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوتا آ رہا ہے، حالیہ دنوں میں پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ، افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گرد زیادہ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں اوردہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں، ایک واقعے میں پاک افغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے دراندازی کی کوشش کرنے والے تین دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے جنرل علاقے بٹوار میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہلاک کر دیا۔ چند دن پہلے 30 اور 31 دسمبر 2023ء کی درمیانی رات افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان کے ضلع اسپن وام کے علاقے میں پاکستانی سرحدی چوکی پر فائرنگ کی،فوج نے بھرپور جواب دیا، فائرنگ کے تبادلے کے دوران میرے آبائی ضلع رحیم یار خان کے چک 99پی سے تعلق رکھنے والے پاک فوج کے نائیک عبدالرئو ف شہید ہو گئے،صرف چند دنوں میں دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیں تو وزیرستان اور بلوچستان کے واقعات کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں، وزیرستان کے تازہ دہشت گردی کے واقعے نے تو پورے وسیب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کوئی ایک واقعہ ہو تو بات کی جائے ، دہشت گردی کے واقعات کی لمبی فہرست ہے اور ان کے ثبوت بھی موجود ہیں ، افواج پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور سب پر یہ بات عیاں ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ دستیاب ہے، اسی اسلحہ کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، فساد افغانستان میں مذموم کردار امریکا اور ان کے اتحادیوں کا ہے کہ سرائیکی کی ایک کہاوت ہے کہ ’’ڈٖین گئی تے ڈٖند سٹی گئی ‘‘۔ امریکا تو افغانستان سے چلا گیا مگر اپنے پیچھے دہشت گرد اور اسلحہ چھوڑ گیا ہے۔عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کو ان حالات و واقعات کا جائزہ لینا چاہئے اور پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے نکالنے کے لیے مدد دینی چاہئے۔