ہمارے ذہنوں میں جو ووٹ کا تصور بٹھایا گیا ہے ،وہ ووٹ کے ذریعے حصول اقتدار ہے۔ امیدوار عوام کو ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے ہیں۔ عوام بھی آنکھیں بند کرکے برادری، سرمایہ دار، وڈیرے، جاگیردار کو ووٹ دیے کر اپنی امیدوں کو اسکے ساتھ نتھی کر لیتے ہیں اور پھر ہر جائز و ناجائز کام میں اپنے امیدوار کو صدا دیتے ہیں۔ وہ تھانے کچہری میں انکی جائز و ناجائز مدد کیلئے سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ الیکشن میں جھوٹ، فریب، خیانت، الزام تراشی، تہمت حتی کے ایمان فروشی تک عیب نہین سمجھی جاتی۔ ووٹر حسب و نسب، پاکدامنی، شرافت، امانت اور دیانت کو پس پشت ڈال کر ووٹ ڈال دیتا۔ پھر امیدوار طاقت کے بل بوتے پر نہ صرف اس میں ڈنڈی مارتے ہیں بلکہ بسا اوقات نتائج بدلنے کی بھی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ 2008ء میں پولنگ سٹیشن خالی رہے مگر صندوقچیاں اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتی رہیں۔ پیپلز پارٹی کو تخت اسلام آباد پر بٹھا دیا گیا ۔2013 ء میں بھی چولے بلی کا کھیل جاری رہا ۔2018 ء میں پھر اسی کی ریہرسل ہوئی ۔اب سوشل میڈیا کا دور ہے اور عوام کو جائز اور ناجائز کی علم ہو چکا ۔ حق اور باطل میں فرق کیا جانے لگا ۔ عوام اپنے لیڈروں کی کہہ مکرنیوں، سیاسی چال بازیوں اور وعدہ خلافیوں کا ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ سیاسی بزر جمہروں کے وعدوں اور جھوٹی تسلیوں کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ بہت سارے ایسے ممبران اسمبلی ہیں جن کے سیاسی نامہ اعمال میں ضمیر فروشی، اقتدار پرستی، لوٹ مار اور مفاد پرستی کے سوا کچھ نہیں لیکن بہت سارے ایسے بھی ہیں جنکے کردار کی اجلی چادر پر خیانت، دھوکہ، فراڈ کا کوئی ایک داغ بھی نہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کی ڈوریاں امریکا، برطانیہ سے ہلائی جاتی ہیں انکے کان، آنکھیں، دل، دماغ سبھی کٹھ پتلیاں ہیں۔ انکے مالک انہیں جہاں مرضی استعمال کر لیں۔ کچھ کے قلوب و اذہان کی تاریں مکہ اور مدینہ سے جڑی ہوئی ہیں ،عبادت سے لیکر سیاست تک، معاشی اور معاشرتی دوڑ دھوپ تک انکا ہر عمل ایمان کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ہمارے نظام میں بہت ساری خرابیاں ہیں، شاعر مشرق نے بھی کہا تھا کہ۔۔۔ جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے اس میں عالم اور جاہل، امین اور خائن، نیک اور بد، ڈاکٹر اور اناڑی، انجینئر اور ٹھیکیدار، شیطان اور علامہ کا ووٹ ایک جیسا ہی ہے۔ صدر پاکستان، وزیر اعظم، گورنر، چیف جسٹس اور وزیر اعلیٰ کا ووٹ، مفتی اعظم پاکستان کا ووٹ اور ایک ریڑھی بان مزدور کا ووٹ برابر ہے۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ووٹ‘‘ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔ ایک شہادت، دوسرا سفارش، تیسرا مشترکہ حقوق میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثواب ہے۔ اسی طرح نا اہل، بے دین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت ہے۔ یہ بری سفارش اور ناجائز وکالت بھی ہے۔ اسکے تباہ کن اثرات بھی ووٹر کے نامہ اعمال میں لکھے جائینگے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان جس شخص کو ووٹ دیتا ہے گویا وہ اسکے متعلق یہ شہادت دیتا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت رکھتا ہے لیکن اگر انسان جانتے ہوئے ایک فاسق فاجر اور بددیانت کے حق میں گواہی دی گاتو یہ ایک جھوٹی گواہی ہو گی جو گناہ کبیرہ اور دنیا و آخرت میں وبال ہو گی۔ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: جھوٹی گواہی دینے والا حقیقت میں چار بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ پہلا: وہ جھوٹ اور افتراء بولتا ہے۔ دوسرا : وہ اس پر ظلم کرتا ہے جس کیخلاف گواہی دیتا ہے۔ تیسرا : وہ اس پر ظلم کرتا ہے جسکے حق میں وہ جھوٹی گواہی دیتا ہے۔ کیونکہ اس نے اسے ایسی چیز کا مالک بنا دیا جس کا وہ حقیقت میں مستحق ہی نہ تھا۔ یوں اس کیلئے دوزخ کی آگ واجب ہو گی۔ چوتھا : جھوٹے گواہ نے ایسی چیز کو مباح کرنے کی کوشش کی جسے اللہ نے حرام کیا تھا۔ جھوٹی گواہی سے ظالموں اور خیانت پیشہ لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ عادل اور امین گوشہ نشینی پر مجبور ہو جاتے ہیں ،لہذا کل ووٹ دیتے وقت ہمیں ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھ کر اپنے ووٹ اورگواہی کا استعمال کرنا ہو گا، حکومت کو بھی ٹکٹ دیتے وقت ذرا ان باتوں کا خیال چاہیے تھا۔ لیکن حکومت نے ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر پیسے اور تعلق داری کو ترجیح دی ہے۔ مغرب میں لوگ ایسے افراد کو ووٹ نہیں دیتے جن کے دامن پر رشوت، خیانت اور اقرباء پروری کے داغ ہوں، لہذا ہمیں بھی 8فروری 2024ء کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اللہ کرے ہم ایمان اور مکمل مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایسے افراد کا انتخاب کریں۔ جو امانت، دیانت اور شرافت میں سب سے بہتر ہوں۔ اسٹبلشمنٹ سمیت سبھی سیاسی جماعتوں کو ایک عوام منڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے اورجو بھی امیدوار عوامی حمایت سے اقتدار میں آئے اسے خوش آمدید کہنا چاہیے ۔عوام و خواص کو بھی اپنی ذمہ داری پورے کرتے ہوئے اس بار 8فروری کو جوش خروش کے ساتھ گھروں سے نکل کر ووٹ کاسٹ کرنا چاہیے ۔اگر عوام اپنے کاموں سے ذرا وقت نکال کر ووٹ کاسٹ کریں اور ٹرن آئوٹ ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دے تودھاندلی کرنا بھی مشکل ہو جائے گا ۔ضمنی انتخابات میں جس طرح کا ٹرن آئوٹ رہا ہے ۔وہ ریکارڈ توڑنا چاہیے ۔ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اس پر پہرا بھی دیں تاکہ جس صندوقچی میں آپ نے ووٹ ڈالا اسی میں سے اسی آدمی کے نام نکلے ۔ ٭٭٭٭