کامل ایک برس میں،کپتان کوعروج کیسے ملا؟اس میں عمران خاں کی اپنی محنت سے زیادہ حکمران اتحاد کی غلطیاں شامل ہیں۔آج جو لوگ عمران خاں سے پیچھا چھڑانے کے درپے ہیں ،اگر یہ اپریل 2022کوان ہائوس تبدیلی کے بجائے،انتخابات کا راستہ اپناتے تو آج نہ صرف وہ حکمران ہوتے بلکہ عمران خاں کی مقبولیت بھی دم توڑ چکی ہوتی ۔اب وہ لاکھ الیکشن سے فرار اختیار کریں ،جب بھی الیکشن ہوں گے ،جلی حروف میں ناکامی لکھی جا چکی۔ خلیل جبران نے کہا تھا: خراب بچوں کوبرا مت کہو ، ان کو برا کہو جو انھیں نظم وضبط سکھانے میں ناکام رہے۔ قدیم روم کی دیومالائی کہانی ہے، کسی شہر میں ایک عورت نے لوگوں کو 12 کتابیں فروخت کرنے کی پیشکش کیں، جس میں خاتون کے بقول دنیا کا تمام علم اور حکمت ان میںموجود تھا، مگر ان کتابوں کی قیمت بہت زیادہ تھی۔لوگوں نے انھیں خریدنے سے انکار کر دیا۔خاتون نے موقع پر ہی آدھی کتابیں جلا دیں اور بقیہ چھ کو دوگنی قیمت پر دوبارہ فروخت کیلیے پیش کر دیا۔ اس مرتبہ بھی لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا۔اس عورت نے مزید تین کتابیں جلا دیں، لیکن باقی فروخت کے لیے رکھ دیں اور ان کی قیمت کو دوگنا کر دیا۔ ایک بار پھر لوگوں نے ہچکچاتے ہوئے اس پیشکش کو بھی مسترد کر دیا۔آخر کار، صرف ایک کتاب باقی رہ گئی، جسے شہریوں نے نہایت مہنگے داموں خرید لیا، تاکہ وہ دنیا کے تمام علم اور حکمت کا 12واں حصہ تو سنبھال لیں۔ایسے ہی عمران خاں نے کیا۔اس نے اسمبلی کو خیر آباد کہا ،تو سیاستدانوں نے اس کا مذاق اڑایا۔اس نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو اسے سیاسی خودکشی قرار دیا گیا۔اس نے دوصوبوں کی اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کا نعرہ لگایا تو سبھی اس کے گرد جمع ہو گئے ۔کیونکہ : فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں ہمارے ملک کے جو آج سیاسی حالات ہیں۔اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟اس کے لیے کسی لمبی چوڑی تمہید کی ضرورت نہیں ۔ الطاف حسن قریشی صحافت کی دنیا میں ایک بڑا نام ہے ۔ صحافت میں انکے ذکر کے بغیر آپ آگے نہیں چل سکتے۔ انھوںنے صحافت میں انمٹ نقوش قائم کیے ہیں۔ ماضی سے حال تک ان کا کام پھیلا ہوا ہے۔ مستقبل بھی انکے عہد اور کارناموں سے معمور رہے گا۔انھوں نے ’’مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا‘‘ ایک کتاب لکھی ہے ۔جو ایک تاریخ ہے۔اسے پڑھیے اور آج کے حالات کا جائزہ لیجیے ۔ایک مقام پر لکھتے ہیں ۔ ’’مشرقی پاکستان کے المیے سے چوتھا سبق۔ دستور کا انحراف اور اس کا عدم احترام‘ قومی زندگی میں بہت فساد پیدا کرتا ہے اور ایسے خطرناک موڑ آ جاتے ہیں جہاں حالات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ 1956ء کا دستور بے پناہ سیاسی ریاضت اور غیر معمولی بصیرت سے منظور ہوا تھا اور پوری قوم نے بے پایاں خوشی کا اظہار کیا تھا۔صدر سکندر مرزا نے پہلے دستور کی تیاری میں سحر انگیز کردار ادا کرے والی عظیم شخصیت کو اقتدار سے محروم کیا اور بعد میں وہ دستور بھی ختم کر دیا، جس میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ساتھ رہنے کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔اس معاہدے پر خطِ تنسیخ پھیر دینے سے دونوں بازوئوں کے درمیان عمرانی اور آئینی رشتہ ختم ہو گیا۔پھر ایوب خاں نے قوم پر 1962ء کا دستور مسلط کیا ‘ مگر اُس پر بھی صحیح روح سے عمل نہ ہوا اور اس امر کا اہتمام کیا گیا کہ اقتدار بنگالیوں کو منتقل نہ ہونے پائے۔ ایوب خاں کے نافذ کردہ آئین میں اس نوع کی دفعات شامل تھیں کہ فرائض منصبی کی عدم ادائیگی یا ملک سے باہر جانے کی صورت میں قومی اسمبلی کے سپیکر‘ صدر پاکستان کے فرائض سرانجام دیں گے۔ جنوری 1968ء میں فیلڈ مارشل ایوب خاں کو دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ تین ہفتے تک اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے قابل نہ رہے‘ لیکن اقتدار سپیکر صاحب کو اس لئے منتقل نہ کیا گیا کہ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔اسی طرح جب صدر ایوب خاں نے اقتدار سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا تو انہیں سپیکر کو اقتدار منتقل کر دینا چاہیے تھا‘ مگر ایسا نہ ہوا اور جنرل یحییٰ خاں کے ہاتھ میں عنانِ حکومت دے دی گئی‘‘۔کیا آج کے سیاسی حالات یہی تصویر پیش نہیں کر رہے ؟ ایک اور جگہ لکھتے ہیں :ہم نے گھر گھر خواہشات کی چتا روشن کی اور سمجھ بیٹھے کہ شب بہار آ گئی۔ اس چتا میں کتنی ہی جوانیاں بھسم ہوئیں اور کتنی ہی ہنستی مسکراتی حقیقی خوشیاں‘ شعلوں کی نذر ہو گئیں۔ہم نے یہی جانا کہ صدیوں پرانا خس وخاشاک کا ڈھیر جل گیا اور اب نئی بستیاں آباد ہوں گی۔تازہ بستیاں تو اہل شوق آباد کیا کرتے ہیں اور دل‘ خس و خاشاک کے ساتھ مل چکا۔اب چتا کی راکھ میں اسے کیوں تلاش کرتے ہو؟ متاع دل عزیز ہے‘ تو خواہشات کی چتا بجھانا ہو گی۔ گلشن میں آگ‘ رنگِ گل سے لگتی ہے‘ آشیاں پر بجلی گرنے سے بھی بھڑک اٹھتی ہے اور کبھی صیاد‘ باغباں کا روپ دھار کر پورے چمن کو آگ لگا دیتا ہے۔ہمارے چمن پہ دو عالم تو گزر چکے ہیں اور اب تیسرا عہد بیت رہا ہے۔باغباں اونچی شاخوں پر بیٹھے شعلوں کا تماشا کر رہے ہیں اور اہل چمن بہ حسرت و یاس انہی کی طرف دیکھ ہے ہیں کہ وہ نظارے سے سیر ہو کر کب آگ بجھاتے ہیں۔وہ آگ کیسے بجھائیں؟ ادھر آگ بجھی اور اُدھر اُن کی خواہشات کی چتا سرد پڑی۔ یہ تو جلتی ہی رہے گی جسم راکھ بنتے رہیں گے اور دل بجھے ہوئے چراغ کی طرح لَو دینا بند کر دیں گے۔ اے میری پیاری قوم ! تُونے اپنے ہاتھوں سے اپنی چتا تیار کی۔تیرے پھول سے بچے اور تیری پھول سی بچیاں کشاں کشاں چتا کی طرف بڑھ رہی ہیں۔تیری محبت اور تیری عظمت کا نام لینے والے‘ تیرے ہزاروں سپوت کٹوا چکے ہیں۔اہل نظر اور اہل دل پکارتے ہی رہے‘ مگر تُونے اہل ہوس کی بات مانی۔ تونے زندگی کو ایک کھیل سمجھا اور قہقہوں میں سنگین حقیقتوں کو اُڑانا چاہا اور جب سنگین حقیقتیں سامنے آئیں۔ تب تُو نڈھال ہو گئی۔‘‘اس کتاب کو پڑھنے سے آپ کا وقت ضائع نہیں گا۔کتابیں علم کا خزانہ ہوتی ہیں، جو ہمارے ذہنوں کو زرخیز بناتی اور وقت اور جگہ سے ماورا ہمارے ذہنوں میں نئے نئے خیالات پیدا کرتی ہیں۔ سٹیفن کنگ نے درست کہا تھا :کتابیں اپنے اندر ایک منفرد قسم کا جادو لیے ہوتی ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔کسی کتاب میں موجود الفاظ کی طاقت اتنی زیادہ ہوتی ہے،جس سے ایوان بھی لزر اٹھتے ہیں۔ ’’مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا‘‘ جسے برادرم علامہ عبد الستار عاصم اور محمد فاروق چوہان کی قلم فائونڈیشن نے شایع کیاہے۔یہ محض کتاب ہی نہیں بلکہ تاریخ ہے،وہ تاریخ جسے ہم بھول چکے،نسل نو اس سے ناواقف،سیاستدان علم ہونے کے باجود غور وخوض کرنے سے فراری۔پون صدی پر محیط یہ داستان ہے۔جسے ہر گھر اور لائبریری میں ہونا وقت کی ضرورت ہے ۔کاش ! ہم تاریخ سے سبق سیکھ کر غلطیوں کو دہرانا چھوڑ دیں ۔