پاک امریکہ تعلقات غیر حقیقی تصورات پر استوار ہیں۔لہٰذا یہ پائیدار نہیں۔غالباً یہی سبب ہے کہ امریکہ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں یہی رٹ لگاتا ہے کہ امریکہ پاکستان سے پائیدار تعلقات کا خواہاں اور کوشاں ہے کیا پاک امریکہ تعلقات مذکورہ طویل دورانیہ کے باوجود ناپائیدار ہیں، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں سب کچھ آ جاتا ہے۔اگر جنوبی ایشیاء کے حالات‘ واقعات اور معاملات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاک بھارت تعلقات پاکستان کی حقیقی پالیسی کے راہنما اصول ہیں۔پاکستان کا قیام محض تقسیم ہند کا نام نہیں بلکہ صدیوں پرانی ہندو مسلم کشمکش اور میل جول کی روایت کا نام ہے یہ روایت کمزور یا قوی ہے‘اس کا فیصلہ وقت کرتا ہے‘ امریکہ یا اسرائیل نہیں‘ گو فی الحال امریکہ کو اس ضمن میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔مگر اس سٹریٹجک حیثیت کا آشیانہ ناپائیدار شاخ پر ہے۔لہٰذا کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ جو سب کچھ تلپٹ کر سکتا ہے۔اس وقت امریکی سرکار پاک بھارت دوستی کو پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد پر قائم کرنا اور رکھنا چاہتا ہے۔یہی سبب ہے کہ امریکہ بھارت تعلقات کی بنیاد مشترکہ سٹریٹجک مفاد اور شراکت داری پر ہے جبکہ پاک امریکہ تعلقات بھارتی رضا مندی اور ضرورت کے مطابق بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔لہٰذا مستقل طور پر ناپائیدار ہیں کیونکہ اس میں اعتبار اور اعتماد کا فقدان ہے۔نیز امریکہ کو پاکستان سے مرضی کے تعلقات رکھنے کے لئے امریکہ نواز سول‘ ملٹری گٹھ جوڑ کی ضرورت ہے اور گٹھ جوڑ پاکستان کے اندر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی باہم رضا مندی سے جنم لیتا ہے۔جبکہ پاکستانی عوام کے لئے صرف جھوٹے وعدے‘ شور شرابا اور غوغا ہے جس سے عوام سرکار کی تبدیلی سے حقیقی تبدیلی کا سہانا خواب دیکھ کر دل بہلا لیتے ہیں۔خواب اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس کو سیاسی معیشت کے ماہر امریکی مدبر پال کریگ رابرٹ (paul Craig Roberts) نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ واشنگٹن (امریکہ) نے پاکستان کی کرپٹ پارلیمان خرید کر پاکستانی عوام کو کھو دیا ہے۔ Washington Purchased Parliament of Pakistan but lost Pakistani Peopleحقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستانی اشرافیہ کو دوستی کا جھانسا دیتا ہے اور عوام کو تبدیلی کا لارا دیتا ہے۔اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ پاکستان میں سرکار سازی عرصہ دراز سے سی آئی اےCIAکی پالیسی کے مطابق ہوتی ہے اور اس ضمن میں امریکہ اپنے درپردہ اور اعلانیہ بظاہر دوستوں اور دشمنوں سے اپنے خلاف نعرہ بازی کراتا ہے تاکہ امریکہ کے خلاف عوامی غیظ و غضب کے غبارے سے ہوا نکلتی رہے اور حالات قابو میں رہیں پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد بھی باہمی مفادات کی روایتی اور آفاقی پالیسی پر قائم ہیں۔پاکستان کا مفاد بھارتی جارحیت اور بھارتی فوجی اہلیت اور صلاحیت کے خلاف عالمی حمایت اور کسی حد تک حفاظت کا تھا جبکہ پاکستان نے وسائل کی نایابی اور عالمی حمایت کے بغیر کشمیر کی پہلی جنگ لڑی اور جیتی۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت اور برطانیہ نے پاکستان کی جراتمندانہ فتوحات کو مزید روکنے کے لئے عالمی طاقتوں اور اداروں سے مدد مانگی، جو اسے مل گئی۔فی الحال عالمی طاقتیں‘ امریکہ‘ اسرائیل‘ روس‘ بھارت کے ساتھ ہیں مگر عالمی اداروں میں چین کی حمایت ہمیشہ پاکستان کے مفاد اور حفاظت میں رہی۔لہٰذا معاملات لٹکتے رہے، حل نہیں ہوئے۔ اس تناظر میں امریکہ روس اور دیگر عالمی طاقتیں خطے میں اسرائیلی استعمار اور تسلط کے لئے پاک بھارت تلخی سے کھیلتے رہے ہیں۔اب کھیل ختم ہوا اور صف بندی کا وقت آ گیا ہے۔یاد رہے کہ امریکہ‘ اسرائیل‘ روس اور برطانیہ وغیرہ بھارت کے دفاعی اور سٹریٹجک حلیف اور شراکت دار ہیں جبکہ بھارت خطے میں اسرائیلی استعمار کا چوکیدار اور امریکہ و روس‘ برطانیہ و فرانس وغیرہ بشمول عالمی ادارے مثلاً عالمی بنک‘ ایشیائی ترقیاتی بنک‘عالمی مالیاتی فنڈ اور بنیادی انسانی حقوق وغیرہ کی تنظیمیں معمار بن کر کام کر رہی ہیں۔ اسرائیلی استعمار کے خلاف ممکنہ سیاسی و معاشی محاذ چین‘ افغانستان اور پاکستان ہے۔جسے سیاسی اصطلاح میںCAP‘China , Afghanistan < pakistan ......کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان چین اور افغانستان کا فطری حلیف اور معاون ہے۔اسرائیل مشرق وسطیٰ کا جغرافیائی حصہ ہے اور بھارت جنوبی ایشیاء کا ملک ہے۔چین نے عالمی معاشی منڈی میں عالمی صیہونی کمپنیوں کی مصنوعات کو مات دی اور دنیا میں چین کی دھاک بٹھائی۔اسرائیلی استعمار کی پہلی اور فوری ضرورت چین کی سرحدی ناکہ بندی اور پاک افغان خطے کو عدم استحکام کا شکار کر کے جغرافیائی شکست و ریخت کرنا ہے۔امریکی سفارتی کامیابی کا کمال ہے کہ اس نے پاکستان کو بھارت کا دوست اور مشترکہ علاقائی حلیف بنا دیا ہے‘حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنا دیا ہے۔یہی وہ سچائی ہے، جس کی نشاندہی پال کریگ رابرٹ نے کی اور امریکہ کی ایسی تحکمانہ پالیسی نے پاک امریکہ تعلقات کو ناپائیداری کا شکار کر رکھا ہے۔پاکستان اور خطے کے مسلمان روائتی طور پر غزنوی‘ غوری اور ابدالی کے حامل اور حلیف ہیں جبکہ پاک امریکہ حلیف پالیسی نے پاکستان کو بالواسطہ اکھنڈ بھارت کا بھی حلیف بنا دیا ہے اور نظریاتی تقسیم کو بے معنی کر کے قائد اعظم گاندھی نہرو سب کو ایک کر دیا ہے۔نوبت بایں جا رسید کہ سابق وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے نریندرا مودی کے لئے گزشتہ بھارتی الیکشن میں جیتنے کی دعا کے لئے کہا: تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا پاکستان میں اپنے مفاد کے لئے نظام اور انتظام میں جارحانہ مداخلت کرتا ہے جبکہ پاکستان میں ہر دو صورت امریکہ نواز سرکار سازی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جنرل ایوب خان ’’دوست بنو‘ حاکم نہیں‘‘ (Friends not Master)کتاب لکھ کر امریکی مداخلت کی نشاندہی اور تنبیہ کی جبکہ جنرل ضیاء الحق نے افغانستان میں شکست کے بعد امریکہ نواز وسیع البنیاد حکومت کی مخالفت کی۔جنرل ایوب خان کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے استعمال کیا۔جنرل ضیاء الحق کو 17 اگست 1988ء کی شام بہاولپور فضائی سازش میں صاف کر دیا۔ تین بار وزیر اعظم بننے والے فرد کو اس لئے دربدر کیا کہ اس نے جوہری دھماکوں کئے اور امریکی دھمکی اور مالی رشوت لینے سے انکار کر دیا تھا۔شہید ملت وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راہ سے ہٹایا کہ انہوں نے ایران کی مصدق حکومت کے خلاف امریکی حلیف بننے سے انکار کر دیا تھا۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کے ضمن میں امریکی پالیسی دوغلی ہے امریکہ بھارتی سرکار کی طرح منہ میں رام رام اور بغل میں چھری رکھتا ہے۔اس وقت امریکہ کراچی کی بندرگاہ پر مشترکہ بحری فوجی مشقیں کر رہا اور مقبوضہ کشمیر میں چین‘ بھارت سرحدات پر بھارت کے ساتھ بھی مشترکہ فوجی مشقیں کر رہا ہے۔ دریں صورت پاکستان کی دوستی و دشمنی چہ معنٰی دارد۔ نیز ہر اہم موڑ پر امریکہ کی ترجیح بھارتی مفاد رہا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کے زیر اثر پاکستان کا حال یہ ہے کہ وہ پاک چین دوستی اور پاک افغان دوستی سے بھی ہاتھ دھو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک امریکہ دوستی غیر حقیقی اور ناپائیدار ہے۔ اس کا ڈراپ سین کب‘ کیسے اور کہاں ہو گا۔آنکھ دیکھنے کی منتظر ہے۔