ظاہر ہے پاکستان بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی میں دخل دینے کی اجازت نہ دے سکتا تھا لہٰذا1954 میں امریکہ کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ کرلیا گیا جبکہ روس نے اس پہ شدید ردعمل ظاہر کیا۔اس سے قبل روس مسئلہ کشمیر پہ غیر جانبدارانہ موقف اختیار کئے ہوئے تھا۔سلامتی کونسل میں جب بھی پاکستان نے کشمیر مسئلہ پہ قراداد پیش کی تو روس نے ووٹ کا اختیار استعمال نہ کیا ۔ اس بار اس نے سلامتی کونسل میں بھارت کے خلاف قرارداد کشمیر کو ویٹو کردیا۔بھارتی رہنما اکثر کہا کرتے ہیں کہ ان کی سرحدیں کوہ ہندو کش سے دریائے میکونگ تک پھیلی ہوئی ہیں ۔اس کی ماضی میں چین کے ساتھ دوستی اسی امید پہ تھی کہ چین ایشیا میں اثرورسوخ کے حوالے سے بھارت کی اہمیت کو سمجھے گا اور دونوں ممالک خطے میں اپنے اپنے حلقہ اثر سے لطف اندوز ہونگے۔انہیں اس کا اندازہ بھی تھا کہ اس خطے میں امریکی موجودگی ان کے اس عزم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت امریکی امداد سے متلطف ہونے کے باوجود ہر بڑے مسئلے پہ ہر فورم میں امریکہ کی مخالفت اور اس کے اثرو رسوخ کی تخفیف کررہا ہے۔جیسے ہی وہ چین کے ساتھ کسی مصالحت پہ پہنچے گا،وہ امریکہ کو خطے سے نکال پھینکنے کی روایتی پالیسی پہ کاربند ہوجائے گا۔وجہ یہ ہے کہ اب تک بھارت نے مغرب سے عسکری امداد لینے کے باوجود اپنا غیر جانبدارانہ تشخص برقرار رکھا ہے۔ ماضی میں بھارت کو امریکی امداد پہ ہمیں کوئی تشویش نہیں رہی البتہ اس کا حجم تشویشناک ہے۔یہ اس قسم کی امداد ہے جو بھارت کے اپنے وسائل کو عسکری حجم میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ عسکریت صرف پاکستان کے خلاف ہے۔اگرچہ 1951ء کے باہمی دفاعی تعاون کے سمجھوتے کے تحت ،بھارت بھی امریکی عسکری امداد حاصل کرتا رہا جو غیر اتحادی ملک کی حیثیت سے اسے غیر مشروط طور پہ حاصل ہوئی اور یہی ایک غیر جانبدار ملک اوراتحادی ملک کا فرق تھا جو امریکہ نے امداد کے معاملے میں دونوں ممالک کے ساتھ روا رکھا۔امریکہ کے اس امتیازی رویے کے باوجود پاکستان امریکی اتحاد میں مضبوطی سے کھڑا رہا۔ گزشتہ سال، پاکستان کو سخت ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا جب چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ ہوا اورامریکہ بھارت کی مدد کو آن پہنچا جو ہمارے لئے مکمل طور پہ ناقابل قبول تھا۔اس کے بعد سے بھارت کو نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ اور دولت مشترکہ کے کئی ممالک کی طرف سے عسکری امداد کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہ امدادی سلسلہ جس میں روس اپنے مقاصد کے لئے شریک ہے، پاکستان کے وجود کو ایک سنگین خطرہ ہے۔ہمارے دوست سوال کرسکتے ہیں کہ کیا پاکستان کے دوستوں کی طرف سے بھارت کو یہ امداد کمیونسٹ چین کے خلاف نہیں ہوسکتی؟کیا بھارت سے یہ وعدہ نہیں لیا جاسکتا کہ یہ ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونگے؟کیا امریکہ اور برطانیہ نے یہ یقین دہانی نہیںکروائی کہ وہ بھارت کی ایسی ہر جارحیت کو ناکام بنا دیں گے؟ان سوالات کا جواب دینے سے پہلے میںکچھ حقائق ان کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔اکتوبر میں چین اور بھارت کے درمیان لداخ او ر بھوٹان کے مشرق میں شمال مشرقی سرحدی ایجنسی میں جھڑپ ہوئی۔اس سے ایک ہفتہ قبل نہرو نے اعلان کیا کہ انہوں نے اپنی افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ چین کو اٹھاکر باہر پھینک دیں ۔اس بات کی آزاد شہادتیں موجود ہیں کہ بھارت نے حملے میں پہل کی تھی۔ دو جھڑپوں کے بعد بھارتی فوج کو سنگین نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس نے لداخ میں دو ہزار مربع میل کا متنازعہ علاقہ گنوا دیا اورچین نے پندرہ ہزارمربع میل کے کشمیری علاقے پہ قبضہ کرلیا۔شمال مشرقی سرحدی علاقے میں بھارتی افواج غیر محفوظ ہوگئیں۔وہی نہیں، آسام چین کے رحم وکرم پہ آن پڑا پھر اچانک چین نے جنگ بندی کی پیش کش کردی اور پورے علاقے سے یکطرفہ طور پہ میک موہن لائن کی حد تک دست بردار ہوگیا۔یہ چین نے بھارت کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعے کے مستقل حل کیلئے مذاکرات کی غرض سے کیا ۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑی سرحدی جھڑپ نہیں ہوئی۔اکتوبر میں پہلی چین بھارت جنگ کے بعد امریکہ نے بھارت کو عسکری امداد کا فیصلہ کیا اور برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک نے اس کا ساتھ دیا اور اسے بھارت کو ایمرجنسی امداد کا نام دیا۔دسمبر میں اس قضیئے کے نمٹنے کے بعد بھی امریکہ اور برطانیہ نے بھارت کو ایمرجنسی بنیادوں پہ بھاری مالیت کی عسکری امداد دی۔یہ امدادی پروگرام گو کئی سطحوں پہ محیط تھا لیکن اس کا بنیادی مقصد چھ بھارتی ڈویژن کو پہاڑی جنگ کے لئے تربیت اور اسلحہ فراہم کرنا تھا۔اس کے بعد بھی امریکی،کینیڈین اور برطانوی مشن بھارتی فضائیہ کی ضروریات کا جائزہ لینے جاتے رہے۔جون میں بھی امریکہ اور برطانیہ نے اسے بھاری ملٹری امداد دی جو غیر روایتی اور نہایت حساس نوعیت کی تھی ۔بھارت کو یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ اسے چین کے خلاف عسکری امداد کے لئے کسی مغربی بلاک میں شمولیت کی ضرورت نہیں بلکہ یہ خود مغرب کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنی غیر جانبدار حیثیت برقرار رکھے اور روس سے بھی امداد وصول کرتا رہے۔بھارت نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی فوج گیارہ ڈویژن سے بڑھا کر بائیس ڈویژن کرلی ۔کہا جاسکتا ہے کہ مغرب ابتدا میں چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی سے خوفزدہ ہوکر بھارت کو امداد دیتا رہا کہ یہ جنگ کہیں دور تک نہ پھیل جائے حالانکہ شروع سے آخر تک یہ ایک سرحدی تنازعہ ہی رہا۔ چین اسے طول دینا ہی نہیں چاہتا تھا ورنہ وہ آسام اور لداخ پہ قبضے کے بعد پرامن طور پہ جنگ بندی اور تنازعہ کے حل کی پیشکش نہ کرتا۔بھارت اسے بہانہ بنا کر مغرب سے عسکری امداد اینٹھتا رہا اور مغرب حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود اس کے ہاتھ مضبوط کرتا رہا۔ اگر مغرب اس امید پہ بھارت کو عسکری امداد دے رہا ہے کہ وہ چین اور کمیونزم کے پھیلائو کے خلاف اس کا معاون بنے گا تو یہ ایک مغالطہ ہی ہے۔نہرو خود اعلان کرچکے کہ حالیہ چین بھارت جنگ کا کمیونزم کے پھیلائو سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ چین کے توسیع پسندانہ عزائم کا شاخسانہ ہے۔اس بہانے بھارت کو بے تحاشہ مسلح کرنے کی مغربی اسکیم پاکستان سمیت اس کے چھوٹے ہمسایوں کے وجود کو خطرات لاحق کررہی ہے۔یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہئے کہ چین کے خلاف ایستادہ کی جانے والی بھارتی فوج درحقیقت اس قابل ہوگی کہ وہ مشرقی پاکستان پہ حملہ کرسکے۔بدقسمتی سے جنرل ایوب خان کے تمام خدشات درست ثابت ہوئے ۔ (ختم شد)