ریاست اور معاشرہ میں چولی دامن کا ساتھ ہے،اگر معاشرہ مضبوط ہے تو ریاست محفوظ اور مستحکم ہے۔ریاست اور معاشرے کا استحکام عدل و انصاف کی فراہمی پر منحصر ہے۔مغربی معاشرہ اور ہندو معاشرے میں کالے‘ گورے اونچ نیچ‘ ذات پات‘ رنگ نسل‘ علاقہ ‘ قبیلہ‘ حسب و نسب اور مذہبی مسالک اور فرقوں میں تقسیم ہے، اسی طرح مغربی و ہندو معاشرے میں امیر غریب ساہوکار ‘ سرمایہ کار اور سرمایہ داری کا نظام ہے، جس نے استعماریت‘ اشتراکیت اور سرمایہ کاری کو پروان چڑھایا نیز ہندو اور عیسائی معاشروں کو مذہبی تقسیم در تقسیم کا مریض بنایا اور مذہبی و مسلکی تحفظ کے نام پر خانہ جنگی کا شکار بنایا اور اعلیٰ مذہبی اقدار کے لئے عالمی وحدت ادیان کا تصور دیا اور مزاحم مذاہب اور معاشروں کو تہذیبی تصادم کی صورت میں عالمی خانہ جنگی کا میدان کارزار بنا دیا ہے۔اس مذکورہ عالمی خانہ جنگی کے ماحول میں مالیاتی ساہو کاروں کی چاندی بن گئی، وہ ہر دو فریق کو اسلحہ فروخت کر کے صرف پھاپھا کٹنی کا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ مختلف معاشی‘ تجارتی‘ سیاسی‘ عسکری اور نو مالیاتی استعمار میں سرمایہ داری مفادات کو یقینی بناتے ہیں۔قصہ مختصر مغربی اور ہندو معاشرہ اور حکومتیں منفی اہداف کو مقصود بنا کر غیر انسانی رویوں اور پالیسیوں کو منظم کرتے ہیں۔امریکہ جو آج مغرب کی نمائندہ سرمایہ دار عالمی طاقت ہے۔نے قومیتی ریاست کو اپنی عالمی پالیسی کا جزولاینفک بنا رکھا ہے۔دریں تناظر پاکستانی بلکہ اسلامی معاشرے کی بنیاد علاقائی‘ قبائلی‘ نسلی‘ عیسائی یا تہذیبی و تمدنی تفریق یا تصادم پر قائم نہیں۔اسلامی معاشرہ انسانی مساوات‘مذہبی آزادی اور عالمی انسانی یکجہتی جیسے اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر استوار ہے۔اسلامی معاشرہ تہذیبی یا مذہبی تصادم کے بجائے تہذیبی تعاون اور مذہبی رواداری اور احترام آدمیت کا درس دیتا ہے۔یہی وہ معاشرتی و مذہبی رواداری کا انسانی اور اخلاقی اصول تھا جس نے صدیوں مسلمان حکمرانوں کو غیر مسلم اکثریتی آبادی اور عوام کے درمیان عدل و انصاف اور احترام کا رشتہ قائم رکھا۔دہلی‘ مشرقی یورپ بشمول یوکرائن‘ اندلس اسلامی روادار روایت کے امین ہیں جبکہ بوسنیا‘روہنگیا‘بھارتی مسلمان‘ کشمیری ‘ فلسطین ‘ لبنانی اور وسط ایشیائی مسلم اکثریتی آبادی غیر مسلموں کی غیر روادار اور تہذیبی تصادم کی غیر انسانی پالیسی کا شکار ہیں‘ اسلامی ریاستیں اور حکمرانوں کی سرکاری پالیسی انسانی یکجہتی‘ مساوات اور اخوت پر استوار تھی اور کسی غیر مسلم کو مذہبی منافرت کا شکار بنانے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔اسی آفاقی اسلامی اصول کو قائد اعظم نے اپنی گیارہ اگست 1947ء کی دستوری تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان میں تمام مذاہب کو یعنی اقلیتوں کو مذہبی آزادی میسر ہو گی مگر ریاستی ذمہ داری کی بنیاد ریاستی وفاداری ہو گی‘ الحمد للہ پاکستان میں اقلیتوں ہندو‘ عیسائی‘ سکھ وغیرہ کو آبادی کے تناسب سے غیر معمولی مراعات اور نمائندگی میسر ہے۔جبکہ پاکستان میں تمام اقلیتوں کا تناسب 3سے 4فیصد ہے۔مگر بدقسمتی سے مسلم اکثریت نے قرآن اور اسوۂ حسنہ کے سنہری اصول چھوڑ کر مسلکی فقہی اور فرقہ وارانہ رویوں کو اپنا لیا اور آج مسلکی تحفظ اور برتری کے لئے باہم دست و گریبان ہیں۔بدقسمتی آج مسلکی انتشار اور منافرت سے بھی زیادہ زہرناک رویے سیاسی گروپوں کے بن گئے ہیں، جس نے دین و وطن سے محبت اور وفاداری کو پس پشت ڈال دیا ہے، یہ رویہ پاکستانی معاشرے اور ریاست کو بربادی سے ہمکنار کر سکتا ہے بلکہ برباد کر رہا ہے۔ پاکستانی ریاست اور معاشرے کی تفہیم کے لئے ان کے تشکیلی اجزا کا جاننا ضروری ہے پاکستان کا قیام تمام مغربی عالمی نظامہائے حکومت سے مختلف بلکہ متضاد ہے قیام پاکستان نے برطانوی و مغربی جمہوری‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی سماجی اور عسکری نظام کو رد کر کے اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا۔ قائداعظم نے 25جنوری 1948کو کراچی بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں برملا کہا کہ پاکستان کا آئین شریعت اسلامی کے اصولوں پر مبنی ہو گا۔اسلامی اصول آج بھی زندگی پر اتنے ہی قابل اطلاق ہیں، جتنے تیرہ سو سال قبل تھے وزیر اعظم برطانیہ مسٹر ایٹلی اور آخری برطانوی گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن اور افواج برطانیہ کے کمانڈر ان چیف جنرل آلٹنلیک اور بھارتی ہندو کانگریس اور دیگر ہندو انتہا پسند قیادت نے قیام پاکستان کو مجبور ہو کر قبول کیا۔یہ مجبوری کیا تھی؟ یہ مجبوری آل انڈیا مسلم لیگ کی مخلصانہ‘ جرأتمندانہ اور مسلمان عوام کے ساتھ وفادارانہ استقامت تھی جس کی نشاندہی برطانوی صحافی بیورلے لنکس میں کی ہے کہ ایشیا کی تقدیر قائد اعظم محمد علی جناح کی مرضی کے مطابق ہو گی کیونکہ انہوں نے منتشر ہندی مسلمانوں کو حصول پاکستان کے لئے سیسہ پلائی دیوار بنا دیا ہے، جو قائد اعظم چاہیں گے مسلمان قوم وہی کچھ کرے گی۔یہ قائد اعظم کی ایمانی استقامت سیاسی بصیرت اور انتظامی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ 1945-46ء کے مرکزی و صوبائی الیکشن میں متحدہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں نے 100فیصد ووٹ حصول پاکستان کے لئے دیا۔قیام پاکستان کے تناظر میں دو معجزاتی محرکات کا بنیادی کردار ہے، پہلا معجزہ یہ ہے کہ پاکستان مغربی اور برطانوی جمہوریت کی پیداوار نہیں، مغربی طرز جمہوریت کے مطابق متحدہ ہندوستان میں غیر مسلم اور عرف عام میں ہندو دائمی غالب اکثریت تھی اور مسلم آبادی دائمی اقلیت یا غیر ہندو آبادی تھی علامہ اقبال اور قائد اعظم کا سیاسی موقف تھا کہ مسلمان ہندو نہیں ان کی علیحدہ اور جداگانہ مذہبی شناخت ہے جس کی بنیاد پر مسلمان قرآن و اسوہ حسنہ اور جداگانہ مذہبی شناخت ہے، جس کی بنیاد پر مسلمان قرآن و اسوہ حسنہ کی روشنی میں علیحدہ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی و عسکری اسلامی نظامی کے نفاذ کے خواہاں ہیں یعنی اسلامی شناخت نے مغربی جمہوریت کے اکثریتی اصول کو تسلیم نہیں کیا اور مقامی و بین الاقوامی طاقتوں سے عوامی مطالبہ تسلیم کرایا کہ ہم بحیثیت مسلمان ایک علیحدہ آزادی اسلامی ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، ہندو اور صلیبی برطانوی عالمی طاقت مذکورہ اسلامی اصول تسلیم کیا ۔ دوسرا معجزہ یہ تھا کہ محکوم مسلم آبادی اور عوام نے اپنی اسلامی شناخت کے لئے معاشرتی یکجہتی کا بے مثال اظہار کیا۔فی الحقیقت پاکستان کا قیام اسلامی شناخت اور مسلم معاشرتی یکجہتی کا معجزہ ہے۔پاکستان کا استحکام بھی مذکورہ دونوں اصولوں پر استوار ہے۔مسلم معاشرتی یکجہتی کی کہانی دلچسپ اور حوصلہ افزا ہے جب مسلمان عوام محکوم تھے تو مسلم علماء و اولیا نے مسلم معاشرے کو اسلامی یعنی مذہبی یکجہتی کی دولت سے مالا مال کیا۔اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان علماء و اولیاء نے مسلم معاشرے اور ریاست میں اسلامی اقدار کو رواج دیا اور عوامی یکجہتی کا ذریعہ بنایا۔مسلمان علماء و اولیاء اللہ نے کبھی ریاستی حکمران کی خواہش نہیں کی، بلکہ مجدد الف ثانیؒ کے اصولی موقف کو اپنایا، اگر مسلمان عوام اسلامی اقدار سے مخلص اور وفادار ہیں تو مسلمان حکمران اسلامی شرعیت اور آئین حیات سے روگردانی کی جرات نہیں کرے گا، یہی اصول تحریک پاکستان کا روح رواں تھا اور قائد اعظم نے اسی آفاقی اسلامی اصول کو اپناتے ہوئے مغربی پاکستان میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور مشرقی پاکستان میں مولانا ظفر احمد عثمانی سے سرکاری علم برداری کی تقریب میں علم لہرانے کا اعزاز مذکورہ علماء سے کرایا۔قائد اعظم نے فرمایا کہ اسلامی ریاست میں معزز ترین فرد عالم دین ہے جو ریاست اور حکومت سے بھی زیادہ معزز و مکرم ہے‘ قیام پاکستان کے بعد بعض علماء نے مذہبی سیاسی جماعتیں بنائیں اور پاکستان کی سیکولر سیاسی جماعتوں کی دبلی دم چھلا بن کر رہ گئیں اور ان مذہبی سیاسی جماعتوں نے اسلامی معاشرتی یکجہتی کی عظیم ذمہ داری میں کوتاہی اور غفلت برتی۔اگر پاکستان بن جانے کے بعد علماء و اولیاء معاشرتی اسلامی اقدار کو عوامی رواج دینے میں کامیاب ہو جاتے تو شاید بلکہ لازماً وطن عزیز یہ حالت زار نہ ہوتی دیر آید درست آید کہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی تنظیم اسلامی اور مفتی تقی عثمانی صاحب کے حلقوں نے معاشرتی ذمہ داری کو اولین ترجیح دی ۔تنظیم اسلامی کے موجودہ امیر محترم جناب شجاع الدین شیخ نے عوامی ذمہ داری اور پاکستان کے حوالے سے لاہور شہر کے دانشوروں ‘ تجزیہ نگاروں‘ کالم نگاروں وغیرہ کو قرآن اکیڈمی لاہور میں دعوت دی جو ملک کی موجودہ دگرگوں حالات میں ایک امید افزاء اقدام ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب بھی سوشل میڈیا کے اپنے وی لاگ میں یہی کچھ کر رہے ہیں۔