بنگلہ دیش ہماری طرح ایک نو عمر ملک ہے۔ تاہم بنگالی صدیوں پرانی قدیم قوم ہیں۔ایک زبان بولتے ہیں، اپنے کلچر پر جو فخر کرتے ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ متحدہ پاکستان سے علیحدہ ہونے سے پہلے بھی بنگالی سیاسی طور پر نسبتاََ بالغ نظر تھے۔ اپنے ابتدائی پر آشوب بیس سال کے بعداس قوم نے جو معاشی اشاریوں میں خطے کے دیگر ممالک کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے تو کیا اس کا مطلق سبب وہی ہے جو آجکل نئے نئے’ نظریاتی‘ ہونے والے سیاستدان بتاتے ہیں؟ بنگالی مسلح مزاحمت اور سیاسی جدو جہد کی صدیوں پر محیط اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ چند ہی سال میں محبوب’ بونگلابندو‘ کو خاندان سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا۔ایک کے بعد ایک فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ اگرچہ سال1991 ء میں کے بعد پارلیمانی جمہوریت بحال ہو گئی مگر جمہوری اقدار نہ ہونے کے برابر۔ دو ’بیگمات‘ کی پارٹیاں اور انتخابات میں وہی دھاندلی ۔سال 2007ء میں غیر معمولی بندوبست کے تحت عبوری حکومت نے دوسال کے لئے اقتدار سنبھال لیا۔ بنگلہ دیش جیسی لولی لنگڑی جمہوریت نوے کی دہائی میں ہمارے ہاں بھی لوٹ آئی تھی۔ تاہم ہمارے ہاں اس دہائی کو عہدِ زیاں (Lost Decade) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔جمہوری حکمرانوں کی کرپشن کے قصے زبانِ زدِ عام تھے۔ بتایا جاتا ہے یہی وہ دور تھا جب سوئس بینکوں میں رقوم بھری جا رہی تھیںاور لند ن سمیت دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کے ذریعے جائدادیں کھڑی ہو رہی تھیں۔کرپشن تو بنگلہ دیش میں بھی کم نہ تھی۔تاہم ہمارے ہاں کی کرپشن اور بنگلہ دیش کے معاشرے میں پائے جانے والے کرپشن میں فرق ڈاکٹر عشرت حسین یوں بیان کرتے ہیں، ’بنگلہ دیش میںسیاستدان کاروباری طبقے سے بھاری رقوم وصول کرتے ہیں، سرکاری ملازموں کے لئے تحفے تحائف اور رشوت وصول کرنا معمول کی بات ہے، جبکہ بدلے میں سرمایہ دار طبقہ اپنے محنت کشوں کا خون خوب نچوڑتا ہے۔تاہم ان میں سے کوئی بھی لوٹ کھسوٹ کا مال منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر منتقل نہیں کرتا۔‘چنانچہ جہاں اپنے ہاں معروف سیاستدانوں کی عرب اور مغربی ممالک میں شاندار جائیدادوں اور مالی اثاثوں کی داستانوںسے بچہ بچہ واقف ہے، بنگلہ دیشی’بیگمات‘ کے متعلق ہم نے بدعنوانی کے الزامات توضرور سن رکھے ہیں، تاہم ان کی بیرونِ ملک جائیدادوں کے انکشافات ہمارے سامنے کبھی نہیں آئے۔ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی رفتارسے دنیا واقف ہے۔ اور دنیا معاشی لحاظ سے مستحکم قوموں کی ہی عزت کرتی ہے۔ تاہم ہم نے اس سب کے باوجود کبھی اس ابھرتی ہوئی معیشت کے حکمرانوں کو عرب اور مغربی ممالک میں طویل نجی دوروں پر دیکھا اور نا ہی ان ملکوں کے بادشاہوں ، صدور اور وزرائے اعظم سے اُن کے خاندانی مراسم کے متعلق سنا۔کہا جا سکتا ہے کہ ہماری طرح بنگلہ دیش میں بھی گوقریب قریب ’مورثی سیاست‘ کارفرما ہے، تاہم بنگلہ دیشی معاشرے کو طاقتور طبقات کا یرغمال (Elite Capture) نہیں بنایا جا سکا۔ہمارے الیٹ طبقے کے بر عکس، بنگلہ دیشی امراء مہنگی کاروں، SUVs اور درآمد کردہ قیمتی سامانِ تعیش کی بجائے اضافی آمدنی کو بچت اسکیموں میں ڈالتے ہیں۔گزشتہ دو عشروں میں بنگلہ دیش میں قومی بچت کے ذریعے سرمایہ کاری کا تخمینہ 15%سے 30% ہو چکا ہے۔نوے کی دہائی میں بنگلہ دیش نے بڑے بڑے منصوبوں پر سرمایہ کاری کی بجائے چھوٹے درجے کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پر توجہ مرکوز کی۔ عورتوں نے اس شعبے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ پاکستان میں کپاس کی اضافی پیداوارکسی زمانے میں ہماری پہچان تھی،اب ان کھیتوں میں گنے کی فصل اگتی ہے۔مشرف کے دور میں ٹیکسٹائل برآمدات نے کچھ عروج دیکھا۔ پھر زرداری صاحب آ گئے۔ سال 2008ء کے بعد ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہونا شروع ہو گئی۔ دنیا کے تمام بہترین برینڈز کی ریڈی میڈ ملبوسات اب بنگلہ دیش میں بنتی ہیں۔ بے شمار چھوٹے بڑے کاروباری بنگالی خود مختار اور وسیع البنیاد اداروں (Inclusive Institutions)کی مدد سے ملکی دولت میں شب و روز اضافہ کر رہے ہیں۔انہی جیسے معاشی اداروں میں ایک گرامین بنک ہے کہ جس نے چھوٹے سرمایہ کاروں، انٹرپرینورز،اور بالخصوص عورتوں کو آسان قرضوں کی فراہمی کے ساتھ قدرتی آفات کی ستائی سرزمین پر معاشی انقلاب برپا کر دیا۔بنگلہ دیش میں عورتوں کی کاروبارِ زندگی میں شمولیت کی روایت اگرچہ بہت پرانی ہے،تاہم گزشتہ چند عشروں میں عورتوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی۔ آج بنگلہ دیش میں98%عورتیں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہیں۔تعلیم یافتہ عورتوں نے مذہبی طبقے کی مخالفت کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے چھوٹے کنبوں کو فروغ دیا۔ چنانچہ جب بنگلہ دیش ہم سے علیحدہ ہوا تو مشرقی بازو کی آبادی اکثریت میں تھی۔ آج ہمارے 22 کروڑ کے مقابلے میں بنگالی محض 16کروڑ ہیں۔ تعلیم ، صحت اور دیگر وسائل کی تقسیم کے باب میں دو ملکوں کی صورتِ حال کو سمجھنا مشکل نہیںہونا چاہیے۔ تربیت یافتہ بنگالی افرادی قوت نے فیصلہ سازی میں روایتی نوابوں اور جاگیر داروں کوبے اثر کر کے رکھ دیا ہے۔ اسکے بر عکس متعدد نیم دلانہ کوششوں کے باوجود ہماری پارلیمنٹ روزِ اوّل سے لیکر آج تک جاگیرداروں، سرداروں ، خوانین اور وڈیروں کے قبضے میں ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی پر تنقیدمیں وزن ہے۔تاہم گزرے عشروں جہاںکچھ ناکامیاں اگرچہ ہم نے ا پنے ہاتھوں سے سمیٹتی ہیںتو وہیں ہمارامحل و وقوع ہمیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہواہے۔ پاکستان وجود میں آیا تو ہندوستان کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر چکا ۔مغربی سرحد پر افغانستان کھلے عام معاندانہ عزا ئم کا اظہار کر رہاتھا۔پاک افواج کو اپنے پائو ں پر کھڑا کرنے کی خاطرامریکی اتحادمیں شمولیت کے فیصلوں پر کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔سکیورٹی معاملات پر کثیر اخراجات پر بھی تنقید جائز ہے۔ تاہم بہتر ہو کہ ملک کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اُس دور کے حکمرانوں کے دل و دماغ میں بھی اترنے کوشش کی جائے۔آج بھی ملکی معاملات میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو جو برتری حاصل ہے تواس کا مداوا قومی ادارے کو کمزور کرنے میں نہیں، سیاسی اور معاشی اداروں کی خود مختاری اور استحکام میںہی پنہاں ہے۔ بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام اور امن و امان کی صورتِ حال ہم سے کہیں بہتر ہے۔ پاکستان چالیس سال سے دہشت گردی کے عفریت سے نبرد آزما ہے۔ غیر ملکی ہمارے ہاں آنے سے کتراتے ہیں۔انتہا پسند عناصربنگلہ دیش میں بھی پائے جاتے ہیں، تاہم وہاں کوئی ایسی علاقائی، لسانی یا مذہبی تنظیم نہیںجو ریاست کو آئے روز سرِ عام للکارتی ہو۔ وزیرِ اعظم حسینہ نے اقتدار سنبھالا تو تمام تر عالمی مخالفت کے باوجود بنگلہ دیشی عدالتوں نے اُن تما م عمر رسیدہ سیاسی کارکنوں کو سولیوں پر لٹکا دیا جن کی وابستگیاں ’جنگ آزادی‘ میں کسی اور طرف بتائی جاتی تھیں۔ بنگلہ دیش کو اگلا چین کہا جا رہاہے۔ہمیں بنگلہ دیش سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ اسی صورت ممکن ہے کہ محض سیاسی بغض اور تعصب کی عینک سے نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی ترقی کے ماڈلز کا کُل جہتی مطالعہ کیا جائے۔