پاکستان پر تنقید بعض حلقوں میں فیشن بن چکی ہے۔کبھی یہ مشق ستم قوم پرست ادا کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی مذہبی حلقہ اسی میں مصروف عمل ہو جاتا ہے۔ اس چاند ماری کا تازہ موضوع یہ ہے کہ پاکستان نے فلسطین کے لیے کچھ نہیں کیا۔ آئیے ذرا تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان نے فلسطین کے لیے کیا کچھ کیا؟ دل سب کے گھائل ہیں، دکھی ہیں ، شکوے بھی ہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کہ پاکستا ن نے فلسطین کے لیے کچھ نہیں کیا۔بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور بہت کچھ نہیں لکھا جا سکتا لیکن کیا ہم میں سے کسی کومعلوم ہے کہ ہمارے ایک ونگ کمانڈر مارون لیزلے مڈل کوٹ ہوا کرتے تھے جو 1971 میں مادر وطن پر قربان ہوئے ۔جب وہ اپنے مشن سے واپس نہ لوٹ سکے تو اردن کے شاہ حسین نے اردن کا قومی پرچم اس درخواست کے ساتھ پاکستان بھجوایا کہ آپ مڈل کوٹ کو یقینا اپنے قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کریں گے لیکن اردن کی یہ درخواست ہے کہ آپ کمانڈر مڈل کوٹ کو دفن کرتے وقت ان کے سر کے نیچے اردن کا قومی پرچم بھی رکھ دیجیے ۔یہ اس عظیم کمانڈر کو اردن کا خراج تحسین ہوگا۔ کمانڈر مڈل کوٹ کا جسد خاکی نہ مل سکا لیکن اردن کا وہ پرچم آج بھی کہیں رکھا ہو گا۔ کبھی کسی نے سوچا اردن نے اپنا قومی پرچم کیوں بھیجا تھا اوراردن کے شاہ حسین کس بات کا خراج تحسین پیش کرنا چاہتے تھے؟اسرائیل کے خلاف عربوں کی جنگ میں کمانڈر مڈل کوٹ جیسے پاکستانی سرفووشوں کے شاندار کردار پر فلمیں بن سکتی تھیں لیکن ہمیں اس کی فرصت کہاں؟ ہمیں تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جب فلسطین کو تقسیم کرتے ہوئے یہاں یہودیوں کی ایک ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا تو یہ پاکستان ہی تھا جس نے اقوام متحدہ میں فلسطین کا مقدمہ لڑا۔ یہ مقدمہ سر ظفر اللہ خان نے اتنے شاندار انداز سے لڑا کہ میرے بس میں ہوتا تو میں اسے ایل ایل بی کے نصاب میں شامل کروا دیتا تا کہ ہمارے طلبا اسے پڑھتے اور سیکھتے کہ قانون کی دنیا میں استدلال کا شاہکار کیسے تراشا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کے یہودی ریاست قائم کرنے کے اس منصوبے کو پاکستان نے جس طرح ادھیڑ کر رکھا اور اقوام متحدہ ہی کے قانون کے مطابق ادھیڑ کر رکھا ، فلسطین کے باب میں اس سے شاندار مقدمہ آج تک پیش نہیں کیا جا سکا۔ مسلم دنیا کی کمزوری اپنی جگہ لیکن یوں سمجھیے کہ پاکستان نے جنرل اسمبلی میں برطانیہ اور امریکہ سمیت یہودی ریاست کے سرپرستوں کو قانون کے میدان میں ناک آئوٹ کر دیا تھا۔ پاکستان کی سربراہی میں جنرل اسمبلی میں جو رپورٹ پیش کی گئی ، اقوام متحدہ کے پاس اس میں اٹھائے گئے کسی ایک سوال کا جواب نہیں تھا۔ پاکستان نے دلائل سے ثابت کیا کہ اقوام متحدہ کے ہاتھوں خود اقوام متحدہ کے قوانین پامال ہونے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی سربراہی میں پیش کردہ رپورٹ میں کچھ سوالات تھے ، کچھ اعتراضات تھی اور کچھ تجاویز تھیں۔ کالم میں سب کو سمیٹنا ممکن نہیں۔ انتہائی اختصار کے ساتھ صرف چند سوالات یہاں لکھ رہاہوں: 1.کیا یہ فلسطینی عوام کا پیدائشی اور موروثی حق نہیں ہے کہ اپنے ملک کے مستقبل، اس کیا آئندہ کے آئین، اس کی حکومت کا فیصلہ وہ خود کریں؟ 2.کیا پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے عربوں کے ساتھ عرب ممالک کی آزادی اور مستقبل کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا اور جو یقین دہانیاں کرائی تھیں (بشمول برطانیہ فرانس کے 1918 کے اعلامیے کے)، کیا ان میں فلسطین کا علاقہ شامل تھا یا نہیں؟ 3.کیا اعلان بالفور جو مقامی لوگوں کی مرضی اور علم کے بغیر جاری کیا گیا، ایک جائز قانونی دستاویز ہے اور کیا عرب اس پر عمل در آمد کے پابند ہیں اور کیا یہ ان وعدوں سے متصادم نہیں جو عربوں سے کیے گئے؟ 4.کیا فلسطین کے انتداب کی دستاویز کی وہ دفعات جن کا تعلق فلسطین میں یہودیوں کے نیشنل ہوم کے قیام سے ہے، لیگ آف نیشنز کے چارٹر مقاصد اور بالخصوص اس چارٹر کے آرٹیکل 22 سے متصادم نہیں ہیں؟ 5.کیا لیگ آف نیشنز کے خاتمے کے بعد فلسطین کے انتداب کا قانونی جواز بھی ختم نہیں ہو گیا۔ اور کیا اب یہ مینڈیٹری پاور برطانیہ کا فرض نہیں کہ وہ فلسطین کی حکومت اور انتظام فلسطین کی اس حکومت کو واپس کر دیں جو وہاں کے حقیقی باشندوں کی نمائندہ ہو۔ 6.کیا فلسطین کے عوام کی اکثریت کی مرضی کے بغیر فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کر لینا لیگ آف نیشنز کے مقاصد اور فلسطین کے مینڈیٹ سے انحراف نہیں؟ 7.کیا اقوام متحدہ کو اس بات کا کوئی قانونی حق ہے اور کیا وہ یہ اختیار رکھتی ہے کہ فلسطین کے عوام کی مرضی کے بغیر فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ بنائے یا اس کے کسی حصے کو یا شہر کو مستقل ٹرسٹی شپ میں رکھنے کا فیصلہ کرے؟ 8.کیا اقوام متحدہ یا اس کے کسی رکن ملک کو یہ اختیار ہے کہ وہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر یا ان کی خواہشات کے برعکس فلسطین کی تقسیم کا کوئی فارمولا تجویز کریں یا اس کی تائید کریں یا اسے مسلط کریں یا فلسطین میں کوئی حکومت بنائیں یا اس کا کوئی آئین وضع کریں؟ 9.۔ کیا جنرل اسمبلی کو اس کا اختیار ہے جو وہ کرنے جا رہی ہے؟ کیوں نہ عالمی عدالت انصاف سے یہی سوال پوچھ کر اس کا ایڈوائزری اوپینین لے لیا جائے کہ کیا جنرل اسمبلی یہ کر سکتی ہے؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کسی ایک سوال پر بحث تک کرانے کی ہمت نہ کر سکی۔ ساری رپورٹ کو یکسر نظر اندازا کر دیا گیا ۔ فرسٹریشن کا یہ عالم تھا کہ اس کے باوجود جب فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ ہو گیا تو جنرل اسمبلی کی ایڈ ہاک کمیٹی کے سربراہ ہربرٹ ویٹ Herbert Vere Evatt نے کہاکہ اسرائیل کا قیام اقوام متحدہ کی عظیم فتح ہے۔ یہ فرسٹریشن کیوں تھی؟ یہ پاکستان کے سوالات ، سفارشات اور تجاویز سے پیدا ہونے والی فرسڑیشن تھی کیونکہ اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ چہروں سے مصنوعی لبادے اتر چکے تھے۔ اصل چہرے سامنے آ چکے تھے۔ پاکستان نے صہیونیت کی سہولت کاری کرنے والی جنرل اسمبلی کی واردات اقوام متحدہ ہی کے قوانین کی روشنی میں ادھیڑ کر چوراہے میں رکھ دی تھی۔ آج بھی پاکستان اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں آج بھی پاکستان کی آواز گونج رہی ہے۔ علامتی ہی سہی مگر مسلم دنیا میں صرف پاکستان ہے جس کے آرمی چیف نے فلسطینی سفیر سے ملاقات کی ہے۔ صرف پاکستان ہے جس کے سینیٹر مشتاق احمد غزہ کی دہلیز تک پہنچے ہیں، صرف پاکستان ہے جس کی سیاسی قوت پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن فلسطینی قیادت سے ملنے قطر پہنچے ہیں۔صرف پاکستان ہے جس کے سابق وزیر اعظم نواز شریف وطن واپسی پر پہلے جلسے میں فلسطین کا پرچم لہراتے ہیں۔ دل بھی لہو ہے ، شکوے بھی ہوں گے ، مگر ایسا نہیں کہ پاکستان کچھ کر نہیں رہا۔تنقید الگ چیز ہے، ہونی چاہیے ، مگر اپنی ریاست کو ہر وقت سینگوں پر لیے رکھنا ایک مریضانہ سوچ ہے۔