گزشتہ دنوں 3-4 جنوری 2022ء کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU) کے ایک دو روزہ سیمینار میں شرکت کی ’’سعادت‘‘ حاصل ہوئی، جس کا عنوان تھا ’’شدت پسندی اور عدم برداشت: قومی یکجہتی کے لئے خطرہ‘‘ (Extremism and Intolerance: A Threat to National Coherence)۔ سیمینار کے موضوعات اور مقررین کی فہرست دیکھ کر جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی دنوں کی یاد تازہ ہو گئی، جب گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعہ کے بعد 2002ء سے ہی پوری پاکستانی قوم کو یہ باور کرانے کی بھر پور کوشش کی جا رہی تھی کہ تم مذہبی طور پر شدت پسند اور عدم برداشت کی حامل قوم ہو۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کی پہلے ایک سال کی خدمات کے اعتراف میں 28 مارچ 2003ء کو جو رپورٹ امریکی کانگریس میں پیش کی گئی، اس کے آغاز میں ہی جنرل پرویز مشرف کی جنوری 2002ء کی تقریر کی توصیف و تعریف کرتے ہوئے درج ذیل الفاظ تحریر کئے گئے تھے۔ "A landmark January 2002 speech in which he criticised Religious Extremism and intolerance in the country"۔ ’’جنوری 2002ء کی امتیازی تقریر جس میں اس نے ملک میں موجود مذہبی شدت پسندی اور عدم برداشت پر تنقید کی‘‘۔ پوری قوم کی یہ تنقید بلا مقصد نہیں تھی اور نہ ہی بغیر کسی مالیاتی ترغیب کے یہ فقرے مشرف کی زبان سے نکلے تھے۔ 2001ء میں ملنے والی ایک کروڑ ڈالر کی امریکی امداد کا حجم بڑھا کر اب ایک ارب دس کروڑ ڈالر کر دیا گیا تھا اور اسلحے کی فراہمی کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات بھی بیش بہا تھیں۔ شدت پسندی اور عدم برداشت کا یہ موضوع جو چند سال ہوئے مردہ ہو چکا تھا، اسے اب دوبارہ کیوں زندہ کیا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس سیمینار کے مقررین اور موضوعات کے انتخاب سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ سیمینار کے مقررین میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اس ملک میں گذشتہ پچاس سال سے جاری نسل اور زبان کی بنیاد پر شدت پسندی اور عدم برداشت کی وجہ سے ہونے والی دہشت گردی پر گفتگو کرتا اور نہ ہی اس سیمینار کے موضوعات میں کوئی ایسا اہتمام ہی کیا گیا تھا۔ تمام تر توجہ اسلام، مسلمان اور ان میں پائی جانے والی شدت پسندی اور فرقہ واریت پر مرکوز تھی۔ پاکستان کو اپنے ظہور سے ہی ایک منصوبے کے تحت نسلی اور لسانی منافرت کا شکار کیا گیا تھا، جس کی بنیادی وجہ اس نوزائیدہ ملک کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا تھا۔ اس ’’کارِ خیر‘‘ میں تین گروہ برابر کے شریک تھے جنہیں انگریز نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اپنی ’’خدمت‘‘ کے لئے منظم کیا تھا۔ پہلی، سیکولر اور لبرل سوچ رکھنے والی بیورو کریسی، دوسری برطانوی طرزِ دفاع پر منظم کی گئی ’’زمین پرست‘‘ سیکولر، لبرل فوج اور تیسری تابع فرمان اور برطانوی حکمرانوں کی خدمت گزار سیاسی اشرافیہ۔ ایک نظریاتی ملک میں ان تینوں اداروں کی اُٹھان تک نظریاتی ہونا چاہئے تھی، لیکن پاکستان بنتے ہی ان تینوں گروہوں نے اپنی ’’برطانوی تربیت‘‘ کا اثر دکھایا۔ اس ملک کو پانچ اکائیوں کا ملک قرار دیا تاکہ اس کی وحدت پر کاری ضرب لگائی جا سکے۔ حالانکہ پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان اور بنگال وہ انتظامی لکیریں تھیں جو انگریز نے اپنے انتظامی مقاصد کے لئے کھینچیں تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد ان لکیروں کو اس قدر مقدس بنا دیا گیا کہ پہلے انہی کی بنیاد پر مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بنا اور اب یہ عالم ہے کہ آپ کو اس ملک میں پاکستان کی تقسیم اور اس کے خاتمے کی گفتگو کرنے والے تو عام نظر آئیں گے، لیکن اگر کوئی صوبہ کی تقسیم کی بات کرے تو فوراً خون کی ندیاں بہانے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ پاکستان ان تمام قومیتوں کے انکار سے وجود میں آیا تھا، لیکن بنتے ہی ان کے تعصبات کو اس لئے اُبھارا گیا تاکہ لوگ کہیں ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘‘ والے تصور کی بنیاد پر اکٹھا نہ ہو جائیں۔ پورے سیمینار میں اس نسلی اور لسانی شدت پسندی اور عدم برداشت پر بالکل گفتگو نہیں ہوئی۔ میں نے بلوچستان پر تھوڑی سی گفتگو کی جسے بعد میں نقارہ خانے میں طوطی کی صدا کی طرح ہوا میں اُڑا دیا گیا۔ کیا بلوچستان کی دہشت گردی، شدت پسندی یا عدم برداشت کسی مذہبی تعصب کا نتیجہ ہے؟ نواب اکبر بگٹی کے سانحے کے بعد جو کچھ بلوچستان میں وہاں پر آباد پنجابی اور دیگر قوموں کے لوگوں پر بیتا وہ ایک المناک داستان ہے۔ یہ معمولی کاروبار، مزدوری یا نوکری کرنے والے لوگ تھے۔ حجام، مستری، نانبائی وغیرہ۔ پاکستان میں سب سے پہلے شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو علیحدہ کر کے قتل کرنے کا واقعہ پیر غیب کے مقام پر ہوا جب بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین پکنک منانے گئے ہوئے تھے تو ان میں سے پنجابی ملازمین کو علیحدہ کر کے ایک قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ چند ہفتوں بعد ایسا ہی واقعہ ڈھاڈر کے قریب ہوا جب ایک بس سے لوگوں کو اُتار کر باقاعدہ شناختی کارڈ دیکھ کر علیحدہ کیا گیا اور انہیں قتل کر دیا گیا۔ کوئٹہ شہر سے ایک لاکھ سے زیادہ پنجابی جو وہاں تین نسلوں سے آباد تھے اور جن کے آباء و اجداد کی قبریں بھی وہاں موجود تھیں، ہجرت کر گئے۔ پشتون بلوچ لڑائی جو اسّی اور نوے کی دہائی میں اس قدر زوروں پر تھی کہ کوئٹہ شہر میں اگست 1988ء کو پورے ایک ماہ کے لئے کرفیو لگانا پڑا۔ کوئٹہ سے کراچی جانے والی بسوں پر پشتونوں کے لئے سفر کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس شدت پسندی اور عدم برداشت کا تعلق بھی کسی مذہب، مسلک یا عقیدے سے نہیں تھا۔ کراچی کے لئے 15 اپریل 1985ء کا دن ایسا تھا جو اسے آگ اور خون کے تالاب میں بدل گیا اور آج تک یہ شہر خوف کے سائے سے باہر نہیں نکل سکا۔ ناظم آباد کا علاقہ جہاں N1 روٹ کی دو منی بسیں آپس میں تیز رفتاری کا مقابلہ کر رہی تھیں کہ سرسید کالج کی دو بہنیں بشریٰ اور نجمہ، نواب صادق علی روڈ عبور کرنے لگیں تو ان میں سے ایک منی بس تلے آ گئیں۔ بشریٰ موقع پر جاں بحق ہو گئی اور نجمہ شدید زخمی۔ اس کے بعد جو اس شہر پر بیتی اور جس طرح ایک پشتون منی بس ڈرائیور کی غلطی کی سزا پورے کراچی میں آباد پشتونوں کو دی گئی وہ اس مملکتِ خداداد پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ بائیس لاشیں تو صرف بلوچستان کے ایک شہر ژوب میں آئی تھیں۔ آج سینتیس سال گزر چکے ہیں، لیکن نسلی اور لسانی بنیاد پر نفرت کا یہ دور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ پُر تشدد واقعات کی یہ اُفتاد کبھی سندھیوں پر ٹوٹتی ہے اور کبھی پنجابیوں پر اور اُردو بولنے والے تو خود بھی ایک طویل خون آشامی کو بھگت رہے ہیں۔ اس عرصے میں بھتہ خوری، قتل و غارت، اغواء برائے تاوان حتیٰ کہ فیکٹری میں تین سو انسانوں کو زندہ جلانے تک، کیا کچھ نہیں ہوا۔ ابھی تک خوف ختم ہوا ہے اور نہ ہی نفرت کا یہ باب بند ہوا ہے۔ اس شدت پسندی اور عدم برداشت کا بھی تعلق کسی مذہب، مسلک یا عقیدے سے نہیں۔ مگر یہ شدت پسندی اور عدم برداشت بھی اس سیمینار کے موضوعات کا حصہ نہیں تھی۔ آج یوں لگتا ہے ہم 2002ء میں واپس چلے گئے ہیں جب امریکہ کے کہنے پر ہم نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ کا آغاز کیا تھا اور ہم یہ ثابت کرنے میں لگ گئے تھے کہ امریکہ اور مغرب جو ہمیں شدت پسند یا دہشت گرد کہتا ہے، ہم بالکل ویسے ہی ہیں۔ مگر ایک بار پھر ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ (اس کا جواب کل ڈھونڈیں گے)۔ (جاری ہے)