روشنی بن کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں ہم وہی لوگ ہیں جو جاں سے گزر جاتے ہیں کتنے کم فہم ہیں یہ ہم کو ڈرانے والے وہ کوئی اور ہیں جو موت سے ڈر جاتے ہیں یہ اشعار یقینا کربلا والوں پر ہی جچتے ہیں’’ کربلا والوں کا رستہ ہے ہمارا رستہ، یہ وہ رستہ ہے کہ جس رستے پر سر جاتے ہیں‘‘ میں نے تو اجمالاًاشعار لکھ دیے تھے اصل میں مجھے تذکرہ کرنا ہے ایک بے باک اور انقلابی پنجابی شاعر کا کہ پلاک والوں نے ان کے نام پر ایک رنگا رنگ میلہ ہی نہیںسجایا بلکہ اس مناسبت سے ایک محدود پنجابی مشاعرہ بھی رکھا جس کے لئے محترم خاقان حیدر غازی نے مجھے بھی مدعو کیا۔ استاد دامن کوئی عام شاعر نہیں تھے وہ جب کسی مشاعرہ میں آتے تو پھر وہاں کسی کا چراغ نہ جلتا۔فیض احمد فیض انہیں پنجابی کا حبیب جالب کہتے تھے۔میرا خیال ہے کہ یہ تعارف ہی کافی ہے کہ مشاعرے کے بعد پکڑنے والے ان کے پیچھے ہوتے تھے خود استاد دامن کا کہنا ہے کہ سٹیج پر وہ سکندر ہوتے ہیں اور سٹیج سے اترتے ہی اندر ۔انہوں نے تو پنجابی میں کہا تھا سٹیج تے سکندر ہوندے آں تے اتردے ای اندر، مجھے پنجاب یونیورسٹی کی نہایت دلچسپ بات یاد ہے کہ میں بھی انگریزی کا طالب علم تھا پتہ چلا کہ استاد دامن جب وہاں ائے تھے تو یہ شعر پڑھا۔ ایہہ کوئی یونیورسٹی اے کہ منڈیاں کڑیاں دی فیکٹری اے کڑیاں منڈیاں نال انج پھردیاں جویں الجبرے نال جیومیٹری اے وہ فی البدیہہ کہنے میں ملکہ رکھتے تھے۔ فی البدیہہ کہنا ہمارے ہاں روایت رہا ہے۔تقریب و مشاعرہ کے تذکرہ سے پہلے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ استاد دامن محب وطن تھے ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جب انہوں نے بھارت میں ایک مشاعرہ پڑھا تو انہیں سننے کے بعد نہرو نے کہا کہ وہ بھارت ٹھہر جائیں تو دامن نے کہا رہیں گے تو وہ پاکستان جا کر چاہے جیل ہی میں رہیں۔انہیں اس مٹی سے پیار تھا وہاں پڑے گئے۔ خاقان حیدر غازی نے تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز کروایا اور پھر یہ بتاتے ہیں کہ اس کی صدارت محترم عامر میر جو کہ وزیر اطلاعات و ثقافت ہیں فرما رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی انہیں دعوت اظہار دی گئی۔میں یہی سمجھا کہ شاید انہیں کہیں اور جانا ہے مگر نہایت خوشگوار بات یہ کہ وہ تو مشاعرے میں بھی ہمیں سنتے رہے۔انہوں نے دامن پر جو مضمون پڑھا وہ اگرچہ اردو میں تھا مگر پتہ چلتا تھا کہ وہ صاحب مطالعہ ہیں آخر وارث میر جیسے قد آور دانشور کے وہ بیٹے ہیںمیں نے ان کے ساتھ بیٹھے ڈاکٹر جواز جعفری سے کہا نہایت عمدہ اور سلیقے سے لکھا ہوا مقالہ لگتا ہے : استاد دامن کے اشعار دیکھیں خطرہ دیس وچ لْٹ دا ہر ویلے صنعت کار وڈا ایتھے تالیاں دا جھگے ڈھاوندے ماڑیاں وستیاں دا رخ بدل کے دریا تے نالیاں دا ددھ پی کے وی ایتھے ڈنگ مارن کیہہ لابھ ہے سپاں نوں پالیاں دا ذھن میں رہے کہ یہ ایوب کا دور تھا پھر بھٹو کے دور میں بھی تو حالات کچھ ایسے ہی رہے کہ شاعری کا مواد بن سکیں۔وہ نظم بھی تو دامن کی مشہور ہوئی۔ ایہہ کیہ کری جانا ایں ایہہ کیہ کری جانا ایں کدے شملے جانا ایں کدے مری جانا ایں لاہی کھیس جانا ایں کھچی دری جانا ایں اس میں لطف کی بات اس دور کا مشہور گیت ہے جو نورجہاں نے گایا تھا میرے ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں۔ بہرحال استاد دامن ایک عہد تھے وہ ٹیکسالی میں شاہ حسین کی کھولی میں رہتے تھے بڑے بڑے لوگ وہاں انہیں ملنے آتے استاد انہیں اپنے ہاتھ سے کریلے گوشت بنا کر کھلاتے کھولی میں کتابیں ہی کتابیں تھیں نایاب مخطوطے بھی۔وہ پیشے کے اعتبار سے درزی تھے۔کہتے ہیں اتنے نفیس کہ کپڑے سے دھاگہ نکال کپڑے سیتے تھے۔نہایت خوددار مہمان نواز اور جی دار۔ چاندی سونے تے ہیرے دی کان تے ٹیکس عقل مند تے ٹیکس نادان تے ٹیکس مکان تے ٹیکس دوکان تے ٹیکس ڈیوڑھی تے ٹیکس لان تے ٹیکس پانی پین تے ٹیکس روٹی کھان تے ٹیکس آئے گئے مسافر مہمان تے ٹیکس انجیل تے ٹیکس قران تے ٹیکس لگ جائے نہ دین ایمان تے ٹیکس ایسے واسطے بولدا نہیں دامن! متاں لگ جائے میری زبان تے ٹیکس خاقان حیدر غازی بہت تجربہ رکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صغریٰ صدف کے ساتھ انہوں نے ان گنت پروگرام پلاک میں کئے۔پتہ چلا کہ نئی ڈائریکٹر بینش فاطمہ ساہی نہایت سلیقہ اور قرینہ رکھتی ہیں اچھا ٹیم ورک کر کے کام کرتی ہیں پلاک صرف پنجابیوں ہی کے لئے نہیں تمام ادیبوں اور شاعروں کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اس کے بانی تو ہمارے پرویز الٰہی صاحب ہیں مجھے یاد ہے کہ اس کے افتتاح میں میں بھی موجود تھا خوشی کی بات کہ عامر بھی ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں اور استاد دامن کی کھولی تک وہ رینوویٹ کروا رہے ہیں دیکھا جائے تو اس عہد میں صحافی دانشور ہیں اچھے کام کر رہے ہیں محسن نقوی صاحب بھی حالات سے لڑ رہے ہیں۔ معزز قارئین مواد بہت ہے کیا لکھیں اور کیا چھوڑیں بہت اچھی نظامت افضل ساحر نے کی ڈاکٹر جواز جعفری تو مرکزی کردار تھے کہ مقالہ بھی خوب پڑھا اور استاد دامن کا کلیات بھی انہوں نے مرتب کیا جو ہمیں خاقان حیدر غازی نے عطا کیا ڈاکٹر نبیلہ رحمن نے نہایت مفصل پیپرپڑھا اور حق ادا کر دیا وہاں جناب علی نواز ملک سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب بھی موجود تھے شعرا میں بابا نجمی کہ مشاعرہ کے صدر رہے اس کے بعد ناچیز اور شاہدہ دلاور شاہ عادل منہاس ظاہرہ سرا اور نصیر احمد استاد دامن کا پورٹریٹ تھا جس پر لکھا تھا: ایتھے کیویں گزاریے زندگی نوں ایہو سوچدے سوچدے گزر چلے