اس بات سے اتفاق ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اب صرف دفاعی تعاون پر مبنی نہیں رہے، دونوں ملک باہمی تجارت کو تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔حال ہی میں طالبان حکومت نے پاکستان کی کاروباری برادری کے ساتھ کوئلے پر برآمدی ٹیکس کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ایک عزیز میاں ناصر بھٹہ خشت صنعت کو کوئلہ فراہم کرتے ہیں ان سے بات کی ۔وہ بتا رہے تھے کہ افغان کوئلہ بھٹہ خشت سے زیادہ صنعتوں میں ایندھن کی ضرورت پوری کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔افغانستان کی طرف سے کوئلے کی قیمت میں کمی سے متعلق اگرچہ یہ پیشرفت خوش آئند ہے تاہم یہ کمی اب بھی خود افغانستان کے لیے کاروبار دوست نہیں ہے۔ تحقیق سے متعلق گروپ ایکس سی ای پی ٹی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے دور حکومت میں پاکستان کو کوئلے کی برآمدات دوگنا ہو چکی ہیں ۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس افغانستان نے کوئلہ پر ٹیکس کی مد میں 160 ملین ڈالر کمائے جو کہ اشرف غنی انتظامیہ کی صلاحیت سے تین گنا زیادہ ہے۔ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی توانائی بحران نے پاکستان کو ایک ایسے وقت میں نقصان پہنچایا ہے جب معاشیمشکلات نے اس کے ڈالر کے ذخائر پر حملہ کیا ہے۔ پاکستان نے افغان کوئلے کی روپے میں ادائیگی کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہے اورجنوبی افریقہ و انڈونیشیا سے معمول کی سپلائی کو ختم کر دیا۔گویا اب زیادہ انحصار افغان کوئلے پر ہے۔ جون جولائی 2022-23 کے بعد سے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔مجموعی طور پر دونوں ممالک کے درمیان تجارت مالی سال 2021-22 میں چوتالیس اعشاریہ سولہ ملین ڈالر سے بڑھ کر مالی سال 2022-23 میں 64.186 ملین ڈالر ہو گئی ہے۔ جون جولائی 2022-23 میں افغانستان کو پاکستان کی مجموعی برآمدات .968 43ملین ڈالر رہیں، جو پچھلے سال کی کل برآمدات سے 12 فیصد زیادہ ہیں۔ اسی طرح افغانستان سے پاکستان کی درآمدات جون جولائی 2022-23 میں 893 ملین ڈالر تھیں جو جون جولائی2021-22 میں 801 ملین ڈالر سے زیادہ تھیں۔ بنیادی طور پر پاکستان کی جانب سے اپنے پاور پلانٹس اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے کوئلے کی درآمد ضروری ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو تقسیم کرنے والے پہاڑوں میں ٹرکوں کے دھول اڑاتے قافلے، پھلوں اور کوئلے کے سامان سے بھرے ہوتے ہیں ، طالبان حکام قافلوں سے راہداری وصول کرتے ہیں ۔افغان طالبان نے داخلی سطح پر کاروبار کی نگرانی کا نطام ترتیب دیا ہے۔ لوگ کاروبار کی طرف آ رہے ہیں۔2021 میں طالبان کے بر سر اقتدار آنیکے بعد سے افغانستان آہستہ آہستہ خود کو سنبھال رہا ہے۔مغربی دنیا اس کے ساتھ کاروبار نہیں کر رہی۔یہ پاکستان ہے جس نے ہمیشہ خوراک، ادویات،چینی،ملبوسات اور دیگر ضروری سامان ترجیحی بنیاد پر افغانستان بھیجا۔ایک بھائی اور ہمسائے کی مدد کی کوشش کی۔طالبان انتظامیہ ٹیکس جمع کرنے میں ماہر ثابت ہو رہی ہے ۔بظاہر پچھلی انتظامیہ کی نسبت بد عنوانی کم ہو رہی ہے۔ پاکستان افغان کوئلہ ترجیحی بنیاد پر درآمد کرتا ہے ۔طالبان کی طرف سے پہلے کول مائننگ ٹیکس جولائی 2022 میں 1200 افغانی تھا جسے بڑھا کر 2500 اور حال ہی میں کم کرکے 2200 افغانی تک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔کسٹم ڈیوٹی کو 45 ڈالر سے کم کر کے 30 ڈالر پر بحال کر دیا گیا ہے۔اس سے پاکستانی امپورٹرز کا مطالبہ پورا نہ سہی کسی حد تک تسلیم کر لیا گیا ہے۔ کان میں افغانکوئلے کی اصل قیمت جمعمزدوری و لاگت 900/1000 افغانی ہے جبکہ کان کنی ٹیکس اس قیمت سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان افغان کوئلے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ رہا ہے اور پاکستان کو کوئلے کی برآمدات افغانستان کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔عبوری افغان حکومت( IAG) کے کوئلے کی برآمدی قیمتوں میں اضافے نے پاکستان کو کم قیمت ذرائع کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کیا ہے جیسے انڈونیشین/افریقی کوئلہ ۔یہ کوئلہ 35,000 روپے فی ٹن،پاکستان کا مقامی کوئلہ 37,000 روپے فی ٹن جبکہ افغانکوئلہ 40,000 روپے فیٹن ہے۔ ¤ افغانی کوئلہ کم معیار کا ہے؛ دیگر آپشنز کے مقابلے میں کم سلفر اور ہائی گراس کیلورفک ویلیو (GCV) پر مشتمل ہے۔ ¤ افغان حکومت تمام افغان کوئلے کے تاجروں کو ٹھیکے دے رہی ہے۔ ¤ تاجر کوئلہ نکالنے کے لئے افغان مزدوروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ نکالا ہوا کوئلہ افغان ملکیت والے ٹرکوں کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے۔کوئلے سے لدے ٹرک پاکستان میں داخل ہونے کے لیے افغان حکومت کو ٹول ٹیکس اور ایکسپورٹ ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔ ¤ آخر میں، پاکستان کا نجی شعبہ بھی افغانوں کو کوئلہ خریدنے کے لیے ادائیگی کرتا ہے۔¤ قیمتوں میں اضافے کے بعد بہت سی پاکستانی فیکٹریوں نے پہلے ہی اپنے پلانٹس کو ہائی سلفر اور ہائی جی سی وی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے تبدیل کر دیا ہے تاکہ افغان کوئلے پر انحصار کم کیا جا سکے۔¤ اگر افغان کوئلے کے پاکستانی خریدار مکمل طور پر دوسرے سستے اور اچھے معیار کے آپشنز کی طرف رجوع کرتے ہیں تو سب سے زیادہ نقصان افغانستان کو ہوگا۔¤ پاکستان کے ساتھ کوئلے کی تجارت میں کمی کا اثر افغانستانکی اقتصادی سائیکل پر پڑے گا ۔ رواں سال جنوری کے آخر میں، ورلڈ بینک نے 2022 کے پہلے نو مہینوں کے دوران 136ارب افغانی ( 1.5 ارب ڈالر) کی "مضبوط" ریونیو کلیکشن کی خبر دی جو کہ اشرف غنی حکومت کے آخری پورے سال کے مساوی ہے۔تاہم، ایک ایسے ملک میں جہاں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ آدھے شہریوں کو شدید بھوک کا سامنا ہے تجارت بڑھنے اور ٹیکس کی رقوم میں اضافے کے اعداد و شمار بہت سے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔عالمی بینک کا کہنا ہے کہ طالبان کے خزانے کا تقریباً 60 فیصد کسٹم کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔کوئلہ ایک ایندھن ہے جو دوسرے کاروباری مواقع پیدا کرتا ہے۔افغان حکومت کو اس کی قیمت پر لچک دکھانی چاہئے تاکہ پاک افغان تجارت کو نئے امکانات سے بڑھایا جا سکے۔