مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی میں 600افراد کو بھرتی کرنے کے ’جْرم‘ پر سابق آمر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے نیب کے ذریعے 2001میں گرفتار کیا اور پانچ سال سے زائد عرصہ ’قیدی‘ رکھنے کے باوجود الزام ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اکتوبر 2006میں اْنہیں اڈیالہ جیل سے رہا گیاتو کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ چوبیس مارچ 2008کو اْسی آمر کے سامنے وزیراعظم پاکستان کے طور پر حلف اْٹھائیں گے۔ دوران ِ قید اِنہوں نے اڈیالہ جیل میں ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان ’چاہ ِ یوسف سے صدا‘ رکھا۔ کتاب بنیادی طور پر جیل کی یادوں پر مشتمل ہے مگر پاکستان میں جمہوری نظام کا مکمل اِحاطہ کرتی ہے۔ ’چاہ ِ یوسف سے صدا‘ بوسنیا اور ہرزگووینیا کے سابق صدر علی عزت بیگو وچ کی کتاب ’نوٹس فرام پر یزن‘ کی طرز پر جیل میں بیٹھ کر حب الوطنی اور قومی جدوجہد پر ایک تفصیلی داستانِ غم ہے۔ علی عزت بیگووچ کی کتاب کا اْردو ترجمہ ایڈووکیٹ خالد محمود نے ’جیل کی یادیں‘ کے نام سے کیا ہے۔جب بائیس مارچ 2008کو اقتدار کا ’ہما‘ مخدوم سید یوسف رضا گیلانی پر بیٹھا تو اْنہوں نے جمہوریت کو تقویت دینے میں دن رات ایک کردئیے۔ انہوں نے توانائی، مالی و معاشی اور ثقافتی پالیسیز کا اجراء کیا۔ صحیح معنوں میں میڈیا اصلاحات بھی سید یوسف رضا گیلانی کے دورِ حکومت میں ہوئیں۔ برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات بہتر ہوئے۔ سابق وزیراعظم پاکستان شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی پالیسیز کے مطابق سید یوسف رضا گیلانی کے حکم پر پیمرا نے تمام بھارتی چینلز بن کردیے۔ وزارتِ عظمیٰ کے آغاز کے دِنوں میں اْن پر تنقید کی گئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق وموجودہ صدر آصف علی زرداری خود وزیراعظم بننا چاہتے تھے اِس لئے اْنہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنوایا تھا۔ کچھ دِنوں بعد پیپلز پارٹی کی قیادت اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اِس بات کی تردید کردی اور موقف اختیار کیا کہ 2013کی آئنی مدت تک سید یوسف رضا گیلانی ہی وزیراعظم پاکستان رہیں گے۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں ’عدالتی کرائسز‘ عروج پر تھا اور ملک میں جسٹس (ر)افتخار محمد چوہدری کی سابق صدر پرویز مشرف کے حکم پر معطلی کا مسئلہ سنگینی اختیار کرچکا تھا۔اِس مرحلے پر مخدوم سید یوسف رضا گیلانی نے صدر آصف علی زرداری کو قائل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور یوں پاکستان پیپلز پارٹی نے تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ملک میں عدلیہ کو بحال کیا۔ تاہم کچھ عرصہ بعداْن کے خلاف نااہلی کی پٹیشن دائر کی گئی اور جس جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بطور چیف جسٹس پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے بحال کیا تھا اْسی جج نے اْنہیں چھبیس اپریل 2012کو ’تیس سکینڈ‘ کی سزا سنا کر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے نااہل کردیا۔ کچھ حلقوں نے کہا کہ سید یوسف رضا گیلانی کی سیاست کا باب اختتام پذیر ہوچکا ہے۔ مگر عدالتی ’نااہلی‘ کی سزا کاٹنے کے بعد سید یوسف رضا گیلانی 2017میں سیاست کے منظر نامہ پر نمودار ہوئے۔2021میں وہ اسلام آباد کی سیٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے اور 2024تک بطور اپوزیشن لیڈر سینٹ رہے جبکہ اپریل 2024سے تاحال وہ سینٹ کے چیئرمین کے طور پر کام کررہے ہیں۔ لودھراں کے ضلعی صدر (یوتھ) مہر عرفان کہتے ہیں کہ مخدوم صاحب کو سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ’امن کا آدمی‘ کہا تھا۔وہ باوقار، بارعب اور ملن سار ہیں۔ تاحال یہ پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جو صوبائی اور وفاقی وزیر رہے۔ سپیکر قومی اسمبلی خدمات سرانجام دیں۔ وزیراعظم پاکستان رہے۔ پھر سینٹ میں اپوزیشن اور اب چیئرمین سینٹ کے طور پر ملک و قوم کی خدمت کررہے ہیں۔ مخدوم سید یوسف رضا گیلانی چوالیس سال سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو اور صدر پاکستان جنابِ آصف علی زرداری کے بااعتماد ساتھی کے طورپر سید یوسف رضا گیلانی نے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کو سہارا دیا وہیں جمہوری اداروں کے استحکام کیلئے بھی گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ مہر عرفان درست کہتے ہیں کہ ’گیلانی صاحب صحیح معنوں میں ملتان کے سلطان اور پاکستان کی شان ہیں‘۔ ’سیاست میں کامیابی کا بنیادی اَصول کیا ہے‘ کے استفسار پہ مہر عرفان نے بتلایا کہ سیاست میں وفاداری اور قربانی معنی رکھتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے استحکام کی بنیاد ’ورکر، وفاداری اور قربانی‘ پہ ٹِکی ہے۔ یہ بات درست بھی ہے کیونکہ مثل مشہور ہے کہ جنابِ آصف علی زرداری اپنے دوستوں کو مشکل اور سْکھی وقت میں کبھی نہیں بھولتے اور یہی بات پیپلز پارٹی پہ بھی صادق آتی ہے۔ پہلے دو ادوارِ حکومت میں پاکستان مسلم لیگ نواز اِس اصول کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ حکومت میں آکر مریم نواز شریف کا اندازِ حکومت حیران کن طور پر مفاہمت، باہمی رواداری اور اتحاد کے اصول پہ چل رہا ہے۔ وہ حزبِ اختلاف پہ تنقید کے نشتر چلانے سے گریز کررہی ہیں۔ یہ اچھی روایت ہے۔ دوسری جانب بانی چیئرمین پاکستان تحریک ِ انصاف اَڈیالہ جیل میں مقید ہیں۔ عین ممکن ہے اْن کی صدا بھی ’چاہِ یوسف‘ کی مانند کتابی صورت میں منظر ِ عام پر آئے۔اگر ایسا ہے تو یقینا بانی چیئرمین کو مخدوم سید یوسف رضاگیلانی کی کتاب ’چاہ ِ یوسف سے صدا‘ ضرور پڑھنی چاہئے۔ اْن کے طرزِ سیاست کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ تحریک ِانصاف کی قیادت کو ضرور اِس اَمر کا جائزہ لینا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں اکثر سیاست دان اپنی قیادت کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں جبکہ تحریک ِانصاف سے کئی نامور سیاست دان کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں۔ اگر تحریک ِانصاف غیر متعصب انداز میں جائزہ لینے میں کامیاب رہی تو اْسے دونوں جماعتوں میں ’وفاداری اور قربانی‘ کا جذبہ نظر آئے گا۔