جس طرح عیسائیوں کے کیتھولک فرقہ کا اعلیٰ ترین مذہبی پیشوا پوپ ہوتا ہے، جس کا مسکن ویٹیکن میں ہے، اسی طرح یہودیوں کی مذہبی پیشوائی ایک ربائیت کونسل کرتی ہے، جس کے صدر دو چیف ربائی ہوتے ہیں۔یہ دس سالہ مدت کیلئے منتخب ہوتے ہیں ۔ ان میں ایک اشکنازی فرقہ ، دوسر ا سیفاردی فرقہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ چند سال قبل جب بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ میں اسرائیل اور فلسطین کے دورہ پر تھا، تو پیغمبر حضرت الیاس ؑ کے شہر حیفہ میں ہماری ملاقات اشکنازی چیف ربی کے ساتھ طے تھی۔ میں اس وفد میں اکیلا مسلمان تھا اور شاید اس ربی کو ملاقات سے قبل یا تو بتایا گیا تھا، یا اس نے ملاقاتیوں کی لسٹ سے اندازہ لگایا تھا۔ کیونکہ ملاقات شروع ہوتے ہی اس نے پہلے یہودیوں اور مسلمانوں کے تعلقات کا ذکر چھیڑ کر شاید مزاح میں کہا کہ دنیا بھر کے ڈیڑھ بلین افراد (مسلمان) یہودیوں یعنی آل ابراہیم کی بہبودی کیلئے دعائیں مانگتے ہیں ۔ اسلئے یہودی دنیا سے کبھی فنا نہیں ہوسکتے ہیں۔جب تصدیق کیلئے اس نے میری طرف نظریں گھمائیں، تو میں نے کہا کہ اگر یہودی آل اسحاق ہیں، تو عرب آل اسماعیل ہیں۔ اس نسبت سے اگر یہودی شریعت کو لاگو کیا جائے، تو وراثت پر حق تو بڑے بیٹے کا ہوتاہے اسلئے آل اسماعیل پر ہی فلسطین اور اسکے وسائل پر حق بنتا ہے اور یہودیوں کو اس کو تسلیم کرنا چاہئے۔ خیر اس وقت اسرائیلی بمباری نے غازہ اور پھر آئے دن کی فوجی کارروائیوں نے فلسطین کے مغربی کنارہ پر جو قہر برپا کر رکھا ہے، اس حوالے سے میں نے قارئین تک حماس کے نائب سربراہ موسیٰ ابو مرزوق اور معروف فلسطینی لیڈر حنان عشراوی کے انٹرویوز پہنچائے۔ اسرائیل کا موقف جاننے اور وہ کب تک فلسطینیوں پر یہ قہر برپا کرکے رکھیں گے، کے سوالات کا جواب حاصل کرنے کیلئے میں نے اسرائیل کے سابق قومی سلامتی مشیر میجر جنرل یاکوف امیڈورسے رابط کیا۔ وہ موجودہ وزیر اعظم بنجیمن نیتن یاہو کے مشیر بھی رہ چکے ہیں اور اسرائیل میں سکیورٹی کے شعبے میں کئی دہائیوں پر محیط ان کا کیریئر رہا ہے۔ وہ اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ایک فوجی افسر کی حیثیت سے حماس کے حملہ نے ان کو حیران کردیا؟ تو ان کا کہنا تھا’’ ہاں یہ واقعی ایک حیران کر دینے والا واقعہ تھا، اور کسی نے اس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ’’ یہ اسرائیل کی فوجی او ر انٹیلی جنس کی ناکامی کا سب سے بڑا مظہر تھا، جو کئی صدیوں تک اسرائیل اور اس کی سلامتی کے شعبو ں کو کچوکے دیتا رہیگا۔ لیکن اس وقت جنگ ضروری ہے اور ہم نے جنگ کے خاتمے تک تمام تحقیقات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیسے ہی ہم جنگ جیتیں گے، ہم ایک مکمل تحقیقات شروع کریں گے کہ کیا غلط ہوا۔ لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سب کچھ غلط ہو گیا اور اس کے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہئے، مگر ابھی توجہ صرف جنگ پر مرکوز ہو نی چاہئے۔‘‘ میں نے دوسرا سوال کیا کہ مغربی کنارے میں تو اس سال یہودی باز آباد کاروں نے ایک تہلکہ سا مچا رکھا ہوا ہے۔ 2005کے بعد تو سب سے زیادہ فلسطینی مغربی کنارہ میں مارے گئے ہیں۔ آئے دن تشدد کے واقعات رونما ہو رہے تھے۔ پھر بھی آپ کو امید تھی، فلسطینوں کی طرف کوئی جواب نہیں ملے گا۔ جنرل امیڈور کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ’’ میں نے آپ کو بتایا کہ جنگ کے خاتمے تک تمام تحقیقات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میرے پاس آپ کے سوال کا فی الحال کوئی جواب نہیں ہے ۔ ‘‘ میں نے انٹرویو کا آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مغربی دنیا تو اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے، مگر دوسری طرف ایک عرصہ کے بعد عرب دنیا بھی اسرائیل کے خلاف متحد ہو گئی ہے۔ کیا یہ اسرائیل کیلئے وارننگ نہیں ہے؟تو انہوں نے کہا ’’کہ عرب دنیا کی حکومتیں جلد ہی اعتدال پر آجائینگی۔ کیونکہ ان کے لیڈر جانتے ہیں کہ حماس ان کیلئے بھی ایک خطرہ ہے۔ لیکن ہاں، عرب دنیا کی سڑکیں حماس کی حمایت کر رہی ہیں۔ ‘‘ میں نے پوچھا کہ پوری دنیا میں ٹی وی ا سکرینوں پر فلسطینی بچوں اور شہریوں کی تصاویر، ہسپتالوں پر بمباری دکھائی جار رہی ہے۔ عالمی رائے عامہ اس کو کب تک برداشت کر پائے گی اور اسرائیلی کی کاروائی کا اختتام کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ’’ ہاں امریکہ اور یورپی حکومتوں نے بے مثال حمایت کی ہے۔وہ اسرائیل کے ساتھ یک جہتی دکھا رہے ہیں۔ عرب دنیا کی حکومتوں نے شور مچا رکھا ہے، مگر در پردہ وہ حماس سے وہ بھی خائف ہیں اور وہ اس کو حاوی نہیں ہونے دینا چاہتے ہونگے۔ یورپ اور دیگر علاقوں میں مظاہرے ہورہے ہیں ، لیکن یہ زیادہ تر عربوں، مسلمانوں اور فلسطینیوں کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ مقامی آبادی ان میں شریک نہیں ہے۔ اسرائیل کی عرب آبادی نے بھی حماس کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ کوئی بھی مسلمان اتنا بے حس نہیں ہو سکتا کہ معصوم شہریوں کو قتل کر دے، جو کہ اسلام میں حرام ہے اور حدیث کے خلاف ہے۔ اسلام تو جنگ میں بچوں اور عورتوں کو مارنے کے خلاف ہے۔ مجھے ان ممالک میں اسرائیل کی حمایت میں کوئی کمی نظر نہیں آتی جو ہمارے لیے اہم ہیں۔ باقی ممالک کی مخالفت ہم ہضم کر سکتے ہیں۔‘‘ میںنے پوچھا کہ ایک تجزیہ یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے ناقبل تسخیر ہونے کا بھرم توڑ دیا، جیسا کہ مصرنے 1973 میں کیا تھا اور اسی کی وجہ سے اسرائیل 1978میں انور سادات کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں بیٹھے پر مجبور ہو گیاتھا۔ کیا اس جنگ کے بعد کوئی امن مساعی پروان چڑھ سکتی ہے؟ تو اسرائیل کے اس زیرک فوجی افسر کا کہنا تھا کہ’’ جنگ کے بعد کیا ہوگا، وہ اس پر کوئی جواب فی الحال نہیں دے سکتے ہیں۔ ابھی فی الحال جنگ جیتنا ہے اور اس کیلئے حماس کی تنظیم کو تباہ کرنا ہے اور اس کی فوجی صلاحیتوں کو ختم کرنا ہے۔ابھی ہماری پوری توجہ مغربی غازہ پر فوجی کنٹرول کرنے کی ہے۔ یہ ایک سخت جنگ ہے، ہمیں معلوم ہے۔اس جنگ کے بعد ہمارے اور فلسطینیوں اور غزہ اور اسرائیل کے درمیان کیا تعلقات ہوں گے؟یہ اچھے سوالات ہیں، لیکن جواب جنگ کے بعد د ے پائیں گے۔ ‘‘ میں نے جنرل یاکوف امیڈورسے پوچھا کہ کیا اسرائیل 1967 کی طرح دو محاذوں پر جنگ لڑ نے کا متحمل ہو سکتا ہے؟۔ کیونکہ ایرا ن یا کم ازکم حزب اللہ کے ملوث ہونے کا اندیشہ تو ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ’’ ہاں، حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا امکان تو ہے۔ اسی لئے اسرائیل نے ریزرو یونٹوں کو بھرتی کیا ہے۔ فضائیہ بھی خاصی سرگرم ہے۔ مگر حزب اللہ سرحد پار اپنے ٹھکانوں سے حملہ کرتی رہیگی، شاید سرحد عبور کرنے کی جرات نہیں کر سکے گی۔ ان کو معلوم ہے کہ یہ حزب اللہ اور لبنان کے لیے تباہ کن ہوگا۔ حزب اللہ کے زیادہ تر کیمپ شہری عمارتوں کے نیچے ہیں۔حز ب اللہ کی کسی بھی کاروائی کا مطلب یہ ہوگا کہ لبنان دوسرا غزہ بن جائیگا۔ لبنان کی اکثریت یہ نہیں چاہتی ہے۔ ‘‘ میں نے سوال کیا کہ پوری دنیا دو ریاستی حل کے حق میں ہے جہاں ایک طرف اسرائیل اپنی سرحدیں متعین کرے، دوسری طرف فلسطین کی بھی سرحدیں ہوں۔ مگر حال ہی میں اقوام متحدہ میں وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیل کا جو نقشہ دکھایا، اس میں تو فلسطین تھا ہی نہیں۔ کیااس سے معاملات اور پیچیدہ نہیں ہوگئے ہیں؟ جنرل یاکوف کا کہنا تھا ’’کہ اسرائیل نے دو کوششیں کیں۔ اوسلو معاہدے کے تحت ہم نے مغربی کنارے سے اپنی فوجیں نکالنے اور علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا عہد کیا تھا۔ مغربی کنارہ کو ایرا اے ، بی اور سی میں بانٹا گیا۔یہ طے پایا گیا کہ ایریا اے میں فلسطینی مکمل طور پر آزاد ہوں گے، وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ ایریا بی میں اسرائیل سیکورٹی کا ذمہ دار ہو گا اور سویلین سائیڈ پر سب کچھ فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت ہو گا۔ ایریا C کے لیے فیصلہ کیا گیا کہ اسرائیل مذاکرات کے دوران کنٹرول رکھے گا۔ ایریا سی میں صرف 52,000 لوگ رہتے تھے، بس۔ باقی علاقے تو مکمل طور پر فلسطینی تحویل میں دئے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ماہ میں 122 اسرائیلی مارے گئے ۔‘‘ اسرائیلی جنرل نے الٹا مجھ سے ہی پوچھا کہ کہ کیا آپ کو 2002 یاد نہیں ہے؟ ’’ہم نے اپنی سلامتی کیلئے ان علاقوں کو واپس لے لیاہے۔ اب ہم ایریا اے اور بی کی بھی سیکورٹی دیکھ رہے ہیں ۔ جب تک فلسطینی تشدد بند نہیں کرتے اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم کارروائیاں کرتے رہینگے۔ دوسرا تجربہ غزہ سے متعلق تھا۔ 2003 میں وزیر اعظم ایریل شیرون نے غزہ سے انخلاکیا۔ جب ہم پیچھے ہٹ گئے تو کوئی اسرائیلی وہاں نہیں رہا۔ ہم وہاں دفن یہودیوں کی قبریں بھی کھود کر ساتھ لے گئے۔ وہ اس خطے کو امن اور ترقی کے انکلیو میں تبدیل کر سکتے تھے۔ لیکن مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے اس کو کیا بنا دیا۔ ‘‘