آج امید و احساس، محبت و عمل، رنگ و روشنی اور خوشبو کے ظہور و وفور کا چوتھا اور آخری دن تھا۔ گلبرگ لاہور میں ایک اداکارہ کے نام پر بنی مارکیٹ کے پہلو میں ،ایم ایم عالم روڈ کے اس سرے پر سرو قد کھڑے ہوٹل کے ایگزیکٹو ہال میں سجے ایک ننھے سے پاکستان اور پاکستانی سماج کے بن کے بکھر جانے کا دن۔یہاں پچھلے چار دن سے پاکستانی یوتھ کا بڑا متنوع ور منفرد گلدستہ سجایا گیا تھا، یہ گلدستہ کسی شہ دماغ نے بڑی ریاضت اور چابکدستی سے ترتیب دیا تھا۔ کوشش یہ کی گئی تھی کہ پاکستانی سماج کی کوئی اکائی اور کوئی رنگ یہاں دکھنے سے رہ نہ جائے اور بڑی حد تک یہ کوشش کامیاب بھی رہی۔ یہاں مدرسہ کے طلبا و علما بھی تھے، یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس بھی، تعلیمی اداروں کے پروفیسرز بھی اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر متحرک نوجوان بھی۔ جمہوریت اور تکثیریت جیسے بنیادی مسائل کی تفہیم اور ترویج کیلئے یہاں مذہبی، سماجی ،قانونی و عمرانی امور کے ماہرین اپنی سوچی ہوئی رائے اور نرم لہجے کیساتھ آتے اور اپنی زندگی کا نچوڑ دے کے جاتے رہے۔ یہاں ادارہ امن و تعلیم کے ڈائریکٹر جناب مرتضٰی صاحب اپنے مسکراتے چہرے اور آہنی عزم کے ساتھ موجود رہے۔جناب ڈاکٹر محمد حسین جمہوریت کے متعلق اپنے کومل احساسات اور دلچسپ ظرافت کے ساتھ عقل وشعور کے در کھولتے رہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالغنی نے کسی سحر کار کی مہارت سے مغربی جمہوریت میں اسلامی و مقامی تضمین کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئے فرد کی قوت کے وہ انقلابی گوشے وا کیے کہ مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور امید کا سورج وجود میں روشنی دینے لگا۔ ڈاکٹر شہباز منج نے جمہوریت کو اسلامی شورائیت کہا اور محنت سے کمائے دلائل سے طلبا کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ صاحبزادہ امانت رسول نے اجتہاد میں پاکستانی اہل حل عقل کے پیچھے رہ جانے پر شکوہ کیا اور معاصر اسلامی ممالک کی فضا میں سانس لیتی جمہوریت کا جائزہ لیا۔ سپریم کورٹ کے نامور وکیل جواد ظفر نے اپنی طلاقت لسانی سے ہر شہری کو حاصل حقوق کا سماں باندھ دیا۔ انہوں نے گفتگو سے ثابت کیا، جتنے برے حالات ہیں، ان سب کے باوجود پاکستان کسی نعمت سے کم نہیں۔ ڈاکٹر ارسہ شفیق اس پراجیکٹ کی ہیڈ بھی تھیں۔ نرم و مہربان منتظم بھی اور جمہوریت میں بنتے بگڑتے بیانیوں کے تانے بانے سمجھانے والی استاد بھی۔ سمیر خان انھی نوجوانوں میں سے ایک تھے، اس ملک کیلئے جنھوں نے دماغ کا گھوڑا قابو کرکے اسے مثبت کاموں کیلئے مختص کر لیا تھا۔ سوشل میڈیا کے متعلق ان کا سیشن واقعی پر از معلومات تھا۔ طلبا نے جس طور یہاں اپنی عقل و خرد کا ،جدید سماج اور اس کی ضروریات سے آگہی و ہم آہنگی کا، پاکستان کے زمینی مسائل سے آشنائی اور دین و دانش اور عصری شعور کے ادراک کا ثبوت دیا، اس نے تو گویا دل میں گلاب کھلا دئیے۔ احساس ہوا، یہ زمین ابھی بانجھ ہوئی ہے نہ بنجر۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی واقعی بڑی زرخیز ہے اور طالع آزماؤں کے جور و ستم کے باوجود زرخیز ہے۔ یہاں جمہوریت میں عام آدمی کی طاقت، جمہور کے لیے ثمرات لانے والی سچی و کھری جمہوریت پر بات تو ہوئی ہی،ساتھ سماج میں ایک مثبت و موثر کردار ادا کرنے کیلئے نوجوانوں کو باقاعدہ عملی تربیت بھی دی گئی۔ مثلا تربیتی الیکشن کا انعقاد کروایا گیا۔ جس میں طلبا نے پارٹی، منشور اور بیانیہ بنانے اور پھر امیدوار کھڑا کرنے سے لیکر سیاست کے داؤ پیچ آزمانے تک سارے مرحلے طے کیے۔ دلچسپ معاملہ تب بنا جب خلاف ورزی پر ایک پارٹی نااہل ہوگئی۔ اس کے بعد میڈیا، دھرنا سیاست،احتجاج و بائیکاٹ سمیت دباؤ، پریشر کے سارے ہنر و گر اور داؤ پیچ آزمائے گئے۔ مزید دلچسپ صورتحال اس وقت بن گئی جب گجرات سے آئی اسمائطارق نے،جو الیکشن کمشنر قرار پائی تھیں۔ اپنے حرف انکار سے اصول کو روندتی ہر طاقت کو پسپا کرکے رکھ دیا۔ یہاں فرد کی اہمیت ،درست جگہ پر درست آدمی کے ہونے اور ایک ڈٹ گئے شخص کے حرف انکار اور جراأت اظہار نے وہ کیفیت پیدا کی کہ لطف آگیا۔ دل سے دعا نکلی کاش اس ہوٹل کے کمرے سے باہر کے پاکستان میں بھی کچھ سر پھروں کے سر میں یہ خو اور جستجو سما جائے۔ خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے اور کوئی ہم سے ہمارے خواب تو نہیں چھین سکتا۔ یہی تو اس چار روزہ تربیتی ورکشاپ کا مرکزی پیغام تھا۔ خیر یہاں جتنے طلبا تھے،اپنے اپنے میدان میں گویا پاکستان کیلئے امید بھرا مستقبل تھے۔ سیکھتے سکھاتے، ایک دوسرے سے تازہ و توانا سوچ شئیر کرتے، دیکھتے ہی دیکھتے چار روز بیت گئے اور وہ دن آگیا۔جب ایک بار پھر سٹیج پر پاکستانی معاشرے کے رنگ سجائے گے اور طلبا میں سرٹیفکیٹ تقسیم کر دئیے گئے۔ یہ سرٹیفکیٹ شاید طلبا کو یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان کی بہتری کی خاطر اور ہمارے تکثیری سماج کی بہبود کی خاطر انھوں کچھ وقت یہاں بتایا تھا، کچھ خواب یہاں دیکھے اور کچھ ارادے ادھر باندھے تھے۔ جن کی تکمیل کیلئے انھیں اپنا اکردار بہرطور ادا کرنا ہے۔ چوتھے اور آخری دن احساس ہوا کہ وہ پہلا دن کہ جب میڈم عروج فاطمہ کو انٹرویو کرنا تھا اور انٹرنیٹ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا، کتنی جلدی آج کے چوتھے دن میں بدل گیا۔ زندگی شاید اسی کا نام ہے۔بہرحال اللہ کا شکر ہے کہ مفاد سے اوپر اٹھ کر یہاں کچھ لوگ پاکستانی کی بہتری کیلئے شعوری اور نظریاتی سطح پر ایسا کام کر رہے ہیں۔ان شاء اللہ جب تک لوگ اندھیرے سے ہار نہیں مانتے کوئی ہماری قسمت کا سورج چھین نہیں سکتا۔