ملک کی موجودہ پراگندہ سیاسی صورتحال نے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے ، ہر کوئی قانون کی اپنی تشریح کر رہا ہے اب بات صرف بیان بازی تک محدود نہیں گرفتاریاں ، چھاپے اور سیاسی انتقام ایک معمول بن چکا ہے ، رہی سہی کسر ''وڈیو لیکس'' نے پوری کردی ہے ایک کے بعد ایک ''وڈیو لیکس''سامنے آرہی ہے مخالف کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا جارہا اس پوائنٹ سکورننگ نے ملکی معیشت کو تباہی کے داہنے پر لا کھڑا کیا ہے وزراء ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کر رہے ہیں عالمی مالیاتی اداروں میں ہماری معاشی ساکھ کو خراب کرنے میں ہمارے اپنے ہی کارفرما ہیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کی ''ڈو مور، ڈومور ''کی گردان ختم نہیں ہو رہی اور عالمی داروں پاکستانی بینکوں کی ریٹنگ کم کر تے جارہے ہیں ،ڈالر کی اڑان ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور عدم ادائیگی کی وجہ سے500 سے زائد کنٹینرز بن قاسم پورٹ پر کھڑے ہیں اگر چند ماہ کے دوران لگائے جانے والے ٹیکسز کا جائزہ لیا جائے معلوم ہوگا زیادہ تر ٹیکسز غریب عوام پر لگائے گئے ہیں اشرافیہ پر لگائے جانے والے ٹیکسز کی شرح بہت کم ہے سیاسی اور معاشی ابتر صورتحال کے اثرات معاشرتی جرائم کی صورت میں نمودار ہو رہے ہیں۔ ایک مصدقہ ذرائع کے مطابق خواتین رہزنوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ملکی معاشی دارالحکومت کراچی میں ان کی تعداد 1000 جبکہ صوبہ پنجاب میں ان کی تعداد 4000سے زائد ہو چکی ہے۔ صوبہ بلوچستان میںسردار اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ وہ طاقت کے نشہ میں انسانی اور بنیادی حقوق پامال کرتا جارہا ہے اس کو کوئی پو چھنے ولا نہیں اور تو اور اس سیاسی دنگل میں ملک کے اہم اداروں کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ انا کا طاقتور جن بو تل سے باہر آچکا ہے اور اب اسے قید کرنے کی کسی میں جرات نہیں رہی ایسے میں اصلاح احوال کی بات نقار خانہ میں طوطی کی آوازمعلوم ہوتی ہے۔ چند روز قبل ملک کی موجودہ صورتحال بارے نیشنل پریس کلب میں سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق نے اہم پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے ملکی سیاسی، معاشی اور معاشرتی ابتر ی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی اگر سیاسی قیادت میں اتفاق رائے پیدا نہ کیا گیا تو کوئی ایکشن کامیاب نہیں ہوگا اور ایسے میں انتخابات کا انعقاد بھی متنازعہ ہو جائے گا۔ سیاسی قیادت میں موجود ڈیڈ لاک کو ختم کیا جائے اسٹیبلشمنٹ اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اس سے قبل بھی ایک ڈیڈ لاک پیدا ہوا تھا اسے بڑی خوش اسلوبی سے جنرل عبد الوحید کاکڑ نے ختم کرایا تھا ہمیں ملک و قوم کی سلامتی کیلئے نیوٹرل نہیں رہنا چاہے بلکہ آگے بڑھ کر اپنا پنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھوںنے اسٹیبلشمنٹ کو مشورہ دیا کہ وہ ملکی سیاسی قیادت کیلئے ایک میٹنگ کا انعقاد کرے اور جب تک وہ کسی ایک نکتہ پر جمع نہ ہو جا ئیں اس وقت تک میٹنگ برخاست نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں اور اس کام کیلئے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت سب سے بھی ملنے کیلئے تیار ہیں کیونکہ سیاسی قیادت میں اتفاق رائے پیدا کرنا ملکی سلامتی کیلئے ناگزیز ہو چکا ہے انہوں نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ اسٹیبلشمنٹ آئندہ اقتدار کیلئے کسی کے نام پر کراس لگا چکی ہے کسی نام پر کوئی کراس نہیں لگا سکتا اور نہ ہی کوئی کسی کو اقتدار میں آنے سے روک سکتا ہے وہ ہی اقتدار میں آئے گا جس کا انتخاب عوام کریں گے اس سے قبل ایسی باتیں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بارے بھی کہیں گئیں اور جنرل پرویز مشرف کو100سال تک وردی میں صدر تسلیم کرنے کی باتیں بھی کی گئیں۔ پھر کیا ہوا محترمہ بھی وطن واپس آئیں اور نواز شریف بھی، جنرل مشرف نے نواز شریف کی واپسی کو روکنے کی کوشش کی لیکن سعودی عرب نے جنرل مشرف کو راضی کیا کہ وہ ایسا نہ کریں۔ ہمارے وزیر خارجہ نے جنرل مشرف کی بات منوانے کیلئے سعودی عرب کے پانچ دورے کئے لیکن بات نہ بنی اس موقع پر انہوں نے انکشاف کیا نواز شریف کی واپسی سعودی شاہی خاندان کی پشت پناہی کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی اب یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ عمران خان کبھی برسر اقتدار نہیں آئیں گے جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے تمام ارکان قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دیں اس اور اس اجلاس میں سیاسی قیادت میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے جس کے بعدعام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا ملک دلدل میں پھنستا چلا جائے گا بے چینی اور انتشار بڑھے گا انہوں نے سیاسی قیادت سے درخواست کی کہ وہ ملکی سلامتی کیلئے اپنی انا سے باہر آئیں انا کو ملکی اور قومی مفادات پر سبقت نہ دیںیہ ملک ہے تو ہم ہیں ،سیاسی قیادت میں اختلاف ایک معمول کی بات ہے ،جاپان ، اٹلی ، یور پ اور امریکہ میں بھی ارکان پارلیمنٹ میں اختلافات ہوتے ہیںاور وہ باہم دست و گریباں بھی ہوتے ہیں لیکن کبھی بھی اپنی اناکو ملکی مفادات پر ترجیح نہیں د یتے انہوں نے سیاست دانوں سے اپیل کی کہ ایک وہ دوسرے کیخلاف غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے گریز کریں۔ اس سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا ملک کے تمام سیاست دان محب وطن ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہے مثبت رویہ وقت کی اہم ضرورت ہے میں ایسے رویہ کے فروغ کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہوں ۔سابق وفاقی وزیر اعجازالحق کی باتیں غیر معمولی ہیں منزل نہیں نشان منزل ضرور ہیں اور موجودہ صورتحال میں امید کی کرن ہیں اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ان باتوں کو سیاسی سطح پر ان کے والد کے روحانی وارث اہمیت دینگے یا نہیں۔ ٭٭٭٭٭