سیاست کروٹ لے رہی ہے۔ بہت پہلے ایک سیاسی کارکن نے سکھایا تھا کہ حالات کا جبر معمولی سی ہوا سے تبدیل ہو جاتا ہے ۔ مسلم لیگ ق مضبوط تھی‘ کام کئے تھے‘ مخالف کمزور تھے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھر پور حمایت حاصل تھی لیکن 2008ء کا الیکشن ہار گئی۔ پیپلز پارٹی واحد وفاقی جماعت تھی۔ چاروں صوبوں‘ آزاد کشمیر میں نمائندگی و حمایت۔ پھر سکڑنے لگی۔ پالیسیاں سندھ کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دی گئیں۔ پارٹی نے پنجاب اور باقی صوبوں کو ترجیحات سے نکالا تو پیپلز پارٹی بھی علاقائی جماعت بن کر رہ گئی۔ مسلم لیگ نواز کے لئے ایک موقع آیا تھا کہ وہ وفاقی جماعت کے طور پر خود کو منظم کرتی لیکن اس نے وفاقی ایشوز کی بجائے چند شخصیات سے خود کو جوڑا۔ شخصیات نے ساتھ چھوڑا تو نواز لیگ بھی علاقائی مرتبان میں آ گئی۔ مبصرین تو اسے جی ٹی روڈ کی جماعت تک کہنے لگے تھے۔ سیاسی کروٹ کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان بولے ہیں۔ کہتے ہیں وہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے حامی نہیں تھے‘ ایسا پیپلز پارٹی کے کہنے پر کیا۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین نے مہینوں کی چپ توڑی ہے۔ بولے: الیکشن نوے روز کے اندر ہونے چاہئیں۔ پیپلز پارٹی نے نیب قوانین میں ترمیم سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہ بھی کہا کہ ان کی جماعت نیب سمیت احتساب کا ہر فورم پر سامنا کرنے کو تیار ہے۔ کہانی یہ بنی ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اپنے اور اپنی ہمشیرہ کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں پر برہم تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے معاملات درست کرنے کی کوشش کی۔ ضدی عمران خان نے جب بات نہ سنی تو وہ موقع کی تلاش میں لگ گئے۔ پیپلز پارٹی بیرون ملک اپنی جمہوری شناخت اور بے نظیر بھٹو کی پہچان سے مدد لیتی رہی ہے۔ امریکہ میں پیپلز پارٹی نے حسین حقانی کی شکل میں ایک نئی طرح کی لابنگ کر رکھی ہے۔ اس لابنگ نے رئیلزم کے تحت امریکی طاقتور حلقوں کو مسلسل یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں مارشل لاء کی بجائے انہیں جمہوری قوتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں وہی خدمات انجام دینے کو تیار ہیں جو فوجی آمر فراہم کرتے رہے ہیں۔ بلاول بھٹو جب زیر تربیت تھے تو انہیں صدر اوبامہ اور صدر ٹرمپ کے ناشتے میں شرکت کے لئے بھیجا جاتا۔ یہ ناشتہ دنیا کے اہم لوگوں کے اعزاز میں دیا جاتا ہے اور اس کی خاصی بھاری فیس ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ امریکہ والے ناشتہ تک مفت نہیں کراتے۔ وہ ہر مہربانی کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ یہی امریکی سسٹم ہے۔ جو بائیڈن نائب صدر کے طور پر پاکستان آتے رہے تھے۔ ان کی اس زمانے سے پیپلز پارٹی کی قیادت سے شناسائی تھی۔ بائیڈن صدر بنے تو آصف علی زرداری نے ایک تقریب میں انہیں اپنا دوست قرار دیا بلکہ تاثر دیا کہ دوستی گہری ہے۔ یہ سب ریکارڈ پر ہے۔ پھر ایسی کہانیاں سننے میں آنے لگیں کہ پاکستان کی منتشر سیاسی جماعتیں جناب آصف علی زرداری کے کہنے پر یکجا ہونے لگیں۔ مسلم لیگ نواز اور جمعیت علماء اسلام جنرل باجوہ کی آشیر باد سے 2019ء میں ہی تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں لگی ہوئی تھیں لیکن انہیں کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ یہ پیپلز پارٹی تھی جس نے پیپلز ڈیمو کریٹک موومنٹ بنائی۔ پی ڈی ایم۔ جب ایک بار موثر اپوزیشن اتحاد بن گیا تو ن لیگ نے حسب معمول شریک جماعتوں کو پی ڈی ایم کے متفقہ ایجنڈے کی بجائے اپنے ایجنڈے کا حامی بنا لیا۔ ن لیگ ہمیشہ ایسا ہی کرتی ہے۔ کسی کی پکی کھیر کھا جاتی ہے۔ پی ڈی ایم میں ن لیگ نے جب پنجاب مخالف نظریات والی علاقائی جماعتوں کے نفرت انگیز بیانات پر خاموشی اختیار کی تو مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کا جلسہ ناکامی کی فیصلہ کن تصویر بن گیا۔ پیپلز پارٹی کو ن لیگ کے رویے سے شکایت پیدا ہوئی اور اس نے خود کو پی ڈی ایم سے الگ کر لیا۔ جو بائیڈن صدر بنے تو پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی میں نئے عہدو پیماں ہوئے۔ ایک بڑا منصوبہ ترتیب دیا گیا۔ سٹریٹ پاور سے محروم ن لیگ کے ذمہ فنڈز لگائے گئے۔ مولانا فضل الرحمان کو کارکن سڑکوں پر لانے کا ٹاسک دیا گیا۔ اس ساری منصوبہ بندی میں پیپلز پارٹی نے اپنا کردار جمہوری دکھانے کا ایکٹ رکھا۔ بلاول کراچی سے مہنگائی مکائو مارچ لے کر اسلام آباد آئے۔ مطالبہ کیا کہ عمران استعفیٰ دیں ورنہ پیپلز پارٹی انہیں گھر بھیج دے گی۔ مولانا کی توپیں بھی اسی طرح کی گھن گرج سنا رہی تھیں۔ ن لیگ کھیر پکنے کا انتظار کر رہی تھی۔ کہانی کا اگلا حصہ یہ سنایا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بائیڈن انتظامیہ کو قائل کر لیا کہ افغانستان سے امریکہ کے رسوا کن انخلا کا ذمہ دار عمران خان ہے۔ عمران خان اور طالبان کے باہمی تعلقات کو خطے میں امریکی مفادات کے لئے خطرہ بتایا جانے لگا۔ عمران خان کو طالبان خان کہا گیا۔ عمران خان کے انٹیلی جنس اتحادی جنرل فیض حمید کی کابل میں چائے کی پیالی والی تصویر پر بیانات دیے گئے۔ امریکی حکومت اور پینٹا گون پر پہلے ہی افغانستان میں شکست کا دبائو تھا۔ یہ وہ نکتہ تھا جہاں امریکی انتظامیہ اور عمران خان کے مخالفین کے مفادات ملتے تھے۔ کہانی کا اگلا حصہ عمران خان اور ان کے رفقا بیان کرتے ہیں۔ سائفر کا کردار تو بہت بعد میں آیا۔ اس سے پہلے جنرل باجوہ کی ملاقاتیں رنگ دکھا چکی تھیں۔ عمران خان کی حکومت اس طرح ختم ہوئی کہ سندھ ہائوس کا داغ پیپلز پارٹی کے دامن پر لگ گیا۔ سنا گیا کہ پیپلز پارٹی سے اگلی حکومت کا وعدہ ہوا تھا۔پھر معلوم ہوا کہ اگلی حکومت بھی ن لیگ کی ہو گی کیونکہ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ووٹ بنک ختم ہو چکا ہے۔ یہاں سے پی ڈی ایم اور پی پی پی ایک دوسرے سے دور ہونے لگے۔ پی ڈی ایم حکومت کے زمانے میں مہنگائی‘ ڈالر کے نرخ‘ پٹرولیم مصنوعات کے داموں‘ لاقانونیت ‘ نیب قوانین میں ترامیم کے ذریعے مقدمات ختم کرانا‘ پنجاب و کے پی میں الیکشن نہ کرنے سمیت ہر معاملے میں پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی ساتھی رہی۔ جناب بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں اپنے بزرگوں کو سیاسی حکمت عملی پر نظرثانی کی درخواست کی۔ اب وہ پھر آئین کی بات کر رہے ہیں۔لندن والے نئی کھیر پکنے کا انتظار کر رہے ہیں۔اب کے پیپلزپارٹی میں پھوٹ والی کھیر۔