حالات کروٹ لینے لگے ہیں، لگتا ہے کہ اب کچھ ہوگا، وجوہات اس کی بیشتر ہیں، وکلاء نے بڑے اعلانات کیے ہیں، پی ڈی ایم کے غبارے سے مسلسل ہوا نکل رہی ہے، مہنگائی پر قابو پانے کی ہر تدبیر کارگر ثابت نہیں ہورہی جبکہ عوام مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آئین پر عملدرآمد کیلئے اہم اعلانات کیے ہیں، سپریم کورٹ بار نے اعلان کیا ہے کہ ملک بھر کی تمام بار ایسوسی ایشنز 14 ستمبر کو ملک گیر ہڑتال کریں گی، بار ایسوسی ایشنز میں پرامن احتجاجی مظاہرے، ریلیاں نکالی جائیں گی، سپریم کورٹ بار کے زیر اہتمام آل پاکستان وکلا کنونشن کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عوام کے حقوق کے لیے کھڑے ہیں، عام انتخابات کا انعقاد آئین کے تحت 90 روز میں کروایا جائے، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کے وکلا آئین کا دفاع اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے، پاکستان اس وقت تاریخ کے انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے، ادارے آئین کے تحت انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہیں، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر شدید تحفظات ہیں، الیکشن کمیشن 90 دنوں میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے، کوئی نگران سیٹ اپ 90 دن سے زائد عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران حکومتیں غیر آئینی ہیں‘ اعلامیہ کے مطابق حکومت یا کوئی ادارہ کسی جج کو دباؤ میں لا کر اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں لے سکتا، دباؤ ڈال کر مرضی کا فیصلے لینے والے کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیے گئے سیاسی کارکنوں کو فوری رہا کیا جائے، خواتین کارکنوں کو ہراساں کرنا ، گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، اس موقع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کا مطالبہ کیا ہے، معروف قانون دان لطیف کھوسہ نے سابق پی ڈی ایم سرکار کے وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع وغیرہ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن صدر مملکت سے الیکشن کی تاریخ کے اعلان کا بھی مطالبہ کر رہی ہے جبکہ سنئیر قانون دان اعتزاز احسن نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شائد صدر مملکت ڈر گئے ہیں، اس لیے الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہے، انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دس دن کے فیصلے وطن عزیز کے 50 سال کے مستقبل کا تعین کرینگے، ان حالات میں جبکہ مہنگائی کی شرح میں حد سے زیادہ اضافے نے عام پاکستانی کو بے چین کر رکھا ہے، پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے 11ججز کو 36 کروڑ روپے سے زائد قرضوں کی منظوری دے دی، لاہورہائی کورٹ کے ججز کو دئیے جانے والے قرضے بلاسود ہوں گے، ججز 12 سال کی مدت میں بغیر سود یہ قرض واپس کریں گے، نگران پنجاب حکومت کی کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس نے ججز کو بلا سود قرضوں کی منظوری دی ہے، سوال ہے کہ کیا نگران حکومت کا یہ مینڈیٹ ہے؟ ملک میں لامحالہ مہنگائی کی ماری عوام اس طرح کے سوال کر سکتی ہے، بجلی کے بلوں پر عوام نے تاریخی ہڑتال کی اور نگران وزیراعظم نے ریلیف کا بار بار اعلان کیا مگر بعدازاں کہا گیا کہ بجلی چوروں کیخلاف کارروائی سے بجلی سستی ہوگی اور عام آدمی پر بوجھ کم ہوگا، حکومت نے آئی ایم ایف سے اس بارے میں بات چیت کا عندیہ دیا، اسکا خوب واویلا رہا اور کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق آئی ایف کی جانب سے بجلی کے 200 یونٹس تک والے صارفین کے لیے 3 سے 4 روپے ریلیف کی منظوری دی گئی ہے، 200 یونٹس تک صارفین کے لیے ادائیگیاں مؤخر کرنے میں بھی ریلیف دیا جائے گا، آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ بجلی کے 400 یونٹس والے صارفین کے لیے ریلیف نہیں ہوگا، آئی ایم ایف نے کم یونٹ استعمال کرنے والے بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے ساتھ ہی گیس کی قیمت میں 45 سے 50 فی صد تک اضافے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے، جس کی حتمی منظوری وفاقی کابینہ سے لی جائے گی، وفاقی کابینہ مؤخر ادائیگیوں اور ریلیف کے لیے حتمی منظوری دے گی جبکہ یہاں قابل ذکر امر ہے کہ بجلی کے بلوں میں ریلیف صرف اگست کے بلوں کے لیے ہوگا، ریلیف سے بجلی کے 200 یونٹس تک کے 64 فی صد صارفین کو فائدہ ہوگا، مؤخر ادائیگیوں کے لیے 10 فی صد جرمانہ بھی عائد نہیں ہوگا، اس کارکردگی پر اب نگران حکومت کو کیا کہیں؟ ان دنوں ڈالر مافیا، ہنڈی، حوالہ، ایران سے تیل سمگلرز وغیرہ کے خلاف کاروائیاں کی جارہی ہیں، جس سے ڈالر، سونے کے نرخ کم ہوئے ہیں لیکن کچھ اقدامات پر نظر ثانی کی ضرورت ہوگی کہ معیشت سے متعلقہ ہر کام طاقت کے زور پر ممکن نہیں، ڈالر مافیا، ہنڈی، حوالہ، سمگلنگ وغیرہ کے خلاف کاروائیاں البتہ ضروری ہیں مگر جس طرح بجلی کی بچت کے لیے ملک بھر میں دکانیں اور کاروبار مغرب کے وقت بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یکم اکتوبر سے 15 فروری تک اس پر عمل ہوگا، اس فیصلے پر چاروں صوبوں کی انتظامیہ عمل کرائے گی، جبکہ اس سلسلے میں مستقل قانون سازی کے لیے مسودہ بھی تیار کیا جا رہا ہے، دعویٰ کیا گیا ہے کہ کاروبار جلد بند کرنے سے 1500 میگا واٹ بجلی کی بچت ہوگی، اس طرح کے اقدامات ترقی یافتہ ممالک کے موازنے کے طور پر تو درست ہیں، اس طرح کے اقدامات پر عمل بھی ہونا ضروری ہے لیکن اس مقصد کیلئے پہلے معیشت کو شاہراہِ ترقی پر لے کر چلنا ہوگا، فی الوقت مارکیٹ ڈاؤن نہیں ڈیڈ ہے، یہ بات ایک بڑے تاجر کی زبان سے سننے کے بعد زیر تحریر لا رہا ہوں، ان حالات میں مغرب کے وقت مارکیٹس بند کروانے جیسے اقدامات سے کاروبار مزید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، سو مہنگائی عوام کو احتجاج پر اکسائے گی اور دوسری طرف وکلاء کی ممکنہ تحریک تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہے، پیپلز پارٹی، ن لیگ، جے یو آئی سب اپنے تیور بدلنے لگے، انھیں مگر اسکا کچھ حاصل نہیں ہونے والا! فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ پی پی نے عین آخری وقت میں تحریک عدم اعتماد لانے پر زور دیا، پیپلزپارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو اس وقت الیکشن ہوجاتے جبکہ ن لیگ کے عطا تارڑ نے کہا کہ اگر فروری تک عام انتخابات نہ ہوئے ن لیگ، پیپلزپارٹی ایک ہی ٹرک پرسوار ہوں گی، عوام کا بدلا مزاج سب کو پریشان کر رہا ہے، حالات کروٹ لینے لگے ہیں، لگتا ہے کہ اب کچھ ہوگا!!!