بھارت کا شمار دنیا کے اُن ممالک میںہوتا ہے جہاں صحافیوں کو بدترین صورتحال اور قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا ہے۔ مودی حکومت قائم ہونے کے بعد انڈیا میںصحافت پر غیر اعلانیہ سنسر شب عائد ہے اورصحافی زیرعتاب ہیں ۔متعدد بار ’’ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا ‘‘نے صحافیوں کی ہراسانی اور پریشان کن بندشوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ واضح رہے کہ میڈیا کی آزادی پر نگاہ رکھنے والے عالمی ادارے رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز نے اپنی تازہ ترین ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں180ملکوں کی فہرست میں بھارت کو150واں مقام دیا ہے۔ سال 2021 ء میں بھارت142ویں درجے پر تھا جبکہ ایک برس میں اس کاگراف مزید8 درجے نیچے آ گرا ہے۔مقبوضہ جموںو کشمیر میں توصحافیوںکو مسلسل بھارت کی خفیہ ایجنسیوں ،فوج اور ظالم پولیس کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔ کئی کشمیری صحافیوں کے خلاف کیسز درج ہوئے ہیں جو کہ ان کی گردنوں پر لٹکتی تلواروں کی مانند ہیں۔ 5اگست2019ء میں بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پہلی مرتبہ بحران زدہ خطے کے دورے پر آرہے ہیں۔ ان کے دورے سے محض دو روز قبل ہی جموں کے مضافات میں سنجوان جلاباد نامی علاقے میں ایک خون ریز تصادم میں دو عسکریت پسند اور ایک بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ 18اکتوبر2022 ء منگل کو دہلی کے ہوائی اڈے پرعالمی ایوارڈیافتہ کشمیری فوٹو جرنلسٹ27 سالہ ثنا ارشاد مٹوجنہیںانھیں 2021ء میں کووڈ سے متعلقہ بہترین کوریج کے لیے امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی نے پُلٹزر ایوارڈ کے لیے منتخب کیا تھا اور یہی ایوارڈ لینے کے لیے وہ جب نیویارک جانے کے لئے ائیرپورٹ پہنچی توانہیں امریکہ جانے سے روکاگیا جبکہ ان کے پاس تمام سفری دستاویزات موجود تھے۔ رواںبرس میں یہ دوسرا موقع ہے جب انہیں بیرون ملک جانے سے روک دیاگیا۔ اس سے قبل جولائی2022ء کو انہیں ایک کتاب کے اجراء اور تصویروں کی نمائش میں شرکت کے لیے پیرس جانے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ثنا کے علاوہ ایک اور خاتون صحافی رُوا شاہ جو ترکی کے نشریاتی ادارہ ’’ٹی آر ٹی‘‘ کے ساتھ وابستہ ہیں، اپنے علیل والد الطاف احمدشاہ جوگزشتہ دنوں تہاڑ جیل میں وفات پاچکے کی دوران اسیری خبرگیری کے لیے انڈیا لوٹیں تو انھیں واپس ترکی جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ گزشتہ برسوں کے دوران متعدد کشمیری صحافیوں کوبھارت سے باہر جانے سے روکا جاچکا ہے۔ 26 جولائی2022ء کو کشمیری صحافی آکاش حسن برطانوی اخبار’’ گارڈین‘‘کے لیے سری لنکا جانے والے تھے لیکن دہلی ہوائی اڈے پر انہیں روک دیا گیا تھا۔ ایک اورکشمیری صحافی گوہر گیلانی کو بھی سال 2019ء میں جرمنی جانے سے روک دیا گیا تھا۔کشمیری میڈیا پر پابندیوں اور صحافیوں کے خلاف آئے روز مقدمات درج کرنے کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے برانچ انڈیا کے سابق سربراہ اور نامور بھارتی مصنف آکار پٹیل نے کئی بار کہاکہ کشمیر میں ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی زیر عتاب ہے۔ آکار پٹیل نے ایک غیرملکی میڈیا چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کشمیر میں 2020 ء میں متعارف کرائی گئی نئی میڈیا پالیسی صحافتی آزادی پر ایک کھلم کھلا وار ہے۔ کشمیری صحافیوں اور مدیروں پر خاص طور سے پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔عالمی برادری کشمیر کے میڈیا اور سول سوسائٹی پر ڈھائے جانے والے مظالم سے نا آشنا نہیں ہے اور اسی وجہ سے عالمی پریس فریڈم انڈیکس کی درجہء بندی میں بھارت بہت نیچے آچکا ہے۔ دی پریس کونسل آف انڈیا کی سہ رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ جاری کی جس میں اس ادارے نے کشمیرکے میڈیا کی سنگین صورتحال بیان کی۔اس سہ رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے 36صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ بعنوان ’’اسٹیٹ آف میڈیا ان جموں اینڈ کشمیر‘‘میںبتایا کہ کشمیر میں صحافی انتہائی دباؤ اور تناؤ کے شکار ہیں۔پریس کونسل کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ میں لکھاکہ کشمیر کے صحافی اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے کے لئے بالکل آزاد نہیں ہیں اور انہیں مختلف سرکاری اداروں سے سخت ترین دباؤ کا سامنا ہے۔ 2016ء سے کشمیر میں صحافیوں کے خلاف49 مقدمات درج کئے جا چکے ہیں جن میں8 معاملات دہشت گردی کے ہیں۔پریس کونسل نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ صحافیوں کی طرف سے متاثرہ کنبوں کا بیانیہ یا شہریوں کے انٹرویو کرنا دشمنی کاکوئی عمل نہیں ہے۔ الغرض خوف کے سائے تلے کشمیر کے صحافیوں پر مختلف تھانوں میں کیس درج کر دیئے گئے ہیں ۔ایک رپورٹ، کبھی ایک تبصرہ، کبھی ایک ٹویٹ کو بنیاد بناکر ان پر مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ انہیں عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور عدالتی عمل کو ہی سزا بنا دیا جاتا ہے۔پولیس تھانوں میں بار بار پیشیاں بھگتنے کے عمل سے گزررہے مقبوضہ کشمیر کے کئی صحافی اب نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اوروہ ماہر نفسیات سے مسلسل علاج و معالجہ کروار ہے ہیں۔ انہیںرات کو نیند نہیں آتی اوروہ نیند کی گولیاں لینے پرمجبورہیں۔کشمیر کے بیشتر صحافی موبائل ٹیلی فون کی نارمل لائن پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کو پختہ یقین ہے کہ ان پر حکام کی کڑی نظر ہے اور وہ جو کچھ کہتے یا لکھتے ہیں اسے کہیں نہ کہیں سنا جا رہا ہے۔