اکیسویں صدی کوبعض لوگ انصاف کی صدی قراردے کربڑی امیدیں باندھ چکے تھے ۔ اس صدی کے دوعشرے بیت چکے ہیں لیکن کشمیرسے فلسطین کے افق پرظلمات کے سائے بدستور گہرا رنگ جمائے بیٹھے ہیں ،کون کرے انصاف۔ کیا عالمی فورم اقوام متحدہ انصاف کرے گا لیکن یہ فورم خاموش تماشائی بنارہا۔5 جنوری اہل کشمیر کے حافظے کی لوح پر ایک بھیانک یاد کے طور پر سوالیہ نشان بن کر محفوظ ہے۔یہ اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی سال تھے۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا میں بہت سے مقامات پر مظلوم طبقات اور قوموں نے یوا ین چارٹر کا سہارا لے کر آزادی اور حق خود ارادیت کی تحریکیں شروع کیں۔برطانیہ نے اپنی نو آبادیوں کو آزادی دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ برصغیر بھی اس ہلچل کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اور برطانیہ کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی یہاں بھی مختلف النوع تحریکیں شروع ہو گئیں ۔ اسی ماحول میں مسلمانانِ برصغیر نے اپنے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ شروع کیا، جبکہ کشمیر ی قوم میں بھی ڈوگرہ راج کے خلاف آزادی کی تحریک شروع ہو گئی ۔ اہل کشمیر کا سیاسی میلان کچھ اور تھا، جبکہ وقت کی کانگریسی قیادت کشمیریوں کی خواہشات کو جبر، دھونس، دھاندلی، مکر، ترغیب اور تحریص ہر انداز سے کچلنے اور اغوا کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔ یوں کشمیر ایک تنازعہ بنتا چلا گیا اور کشمیری مسلمان حالات کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ۔ بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہو گئیں ۔نتیجتاً پاکستان اور بھارت کے مابین سر زمین کشمیر پر با قاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا ۔بھارت اپنا مقدمہ اس دعوے کے ساتھ اقوام متحدہ میں لے کرگیا کہ کشمیر میں حالات بہتر ہوتے ہی رائے شماری کا اہتمام کر کے کشمیریوں کو آزادانہ طور پر اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملنا چاہیے جبکہ پاکستان کا مقدمہ تو تھا ہی یہ کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے ۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا وکیل بن کر سامنے آیا۔ بھارتی موقف کی حمایت میں ایک بار شیخ عبد اللہ جبکہ آزاد کشمیر کی طرف سے سر دار ابراہیم خان پیش ہوئے۔ اسی عالم میں اقوام متحدہ نے 5جنوری 1949 کی قرار داد منظور کی جس میں پاکستان اور بھارت کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے بین الاقوامی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی۔ اس قرار داد کو پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی حمایت حاصل تھی ۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد ہی دونوں ملکوں میں جنگ بندی ہو گئی لیکن جنگ بند نے کے باوجود اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل دار آمد نہ کرا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان قراردادوں پر بھارت نے واشگاف طریقے سے عمل در آمد کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ دونوں کے مابین1965کی جنگ ہوئی پھر1971میں دونوں ملک خونین تصادم سے گزرے ۔کشمیریوںکے بعد جن قوموں نے حق خود ارادیت کی جدوجہد شروع کی انہیں اقوام متحدہ کے زیر سایہ منزل مراد مل گئی ۔ جنوبی سوڈن اورمشرقی تیمور اس سلسلے میں ایک اہم مثالیں ہیں ۔چونکہ کشمیرخالصتاََمسلمانوں کامسئلہ ہے اس لئے یہاں 72برس گذرنے کے باوجودکشمیری عوام کو ریفرنڈم کے حق سے محروم رکھاگیا۔ کشمیر میں چونکہ مسلما نوں کی اکثریت ہے اور اس لیے امریکہ اور اس کی لونڈی اقوام متحدہ کو کشمیر میں اپنی قراردادوں پر عملدر آمدکرانے میں دلچسپی نہیں۔5 جنوری 1949کو منظور کی جانے والی قرار داد میں کشمیریوں کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ آزادانہ طریقے سے ووٹ کے ذریعے بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ اپنا مقدر وابستہ کر سکتے ہیںلیکن 1949ء سے آج تک بھارت نے اس قرارداد پر عمل در آمد نہیں ہونے دیا بلکہ حیلوں بہانوں سے اس معاملے کو ٹالتا چلا آرہا ہے۔دنیا جانتی ہے کہ اس مقدمے میںکشمیریوں اور پاکستان کا موقف ہی صائب ہے لیکن اقوام متحدہ کے دہرے معیار اور کشمیر میں اپنی قراردادوں پر عمل در آمد میں نا کامی نے اس ادارے کے وجود، ساکھ اور (Credibility)سے آگے ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگا رکھا ہے ۔یہ اقوام متحدہ کی عدم فعالیت ہی ہے جس نے دنیا کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے ۔ مسلمان ممالک اس سے کلیتا مایوس ہونے جا رہے ہیں۔ مسلم معاشروں میں یہ سوچ بڑی شدت سے جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ انہیں اقوام متحدہ سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔ آج تک مسلمانوں کا کوئی مسئلہ چاہے وہ کشمیر ہو یا فلسطین حل نہیں کیاگیا۔ اقوام متحدہ کی اپنی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ یہود و نصاری کی حمایت تو کی لیکن مسلمانوں کے معاملے میں اس نے ہاتھ پیر باندھے رکھے۔بہر کیف مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی مکمل طور پر واضح اور موثر قرار دادیں موجود ہیں جن کے مطابق کشمیریوں کو رائے دہی کا حق حاصل ہے۔امریکہ اور بعض دوسری طاقتیںاس سازش میں مصروف ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا معاملہ گول کر دیا جائے ۔ اقوام متحدہ اور امریکیوں کی معاندانہ روش ، منافقت اور دہرا معیار ہر مقام پر مسلمانوں میں اس کے خلاف رد عمل پیدا کر رہا ہے ،مسلمانوں کو تیسرے درجے کی مخلوق سمجھ کر ان کے حقوق کے لئے مختلف معیار اور پیمانوں کے استعمال کا رویہ مغرب اور مسلمانوں میں خوفناک عالمی کشمکش کو جنم دے رہا ہے ۔ اگر امریکہ اور اقوام متحدہ اپنے بارے میں پائے جانے والے تاثر کو ختم کرنا اور اس خوفناک عالمی کشمکش کو روکنا چاہتے ہیں تو انہیں دہرے معیار کو ترک کر دینا چاہیے اور عالمی منظر پہ مسلمانوں کو ان کا حق دینا چاہیے ۔ مشرقی تیمور کے بعد مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملد رآمد ان کیلئے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے وہ کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام کر کے اور فلسطین کی سر زمین پر بیت المقدس پر فلسطینی مسلمانوں کا حق تسلیم کر تے ہوئے اپنے دامن پر لگنے والے تعصب کے بد نما دھبوں کو دھو سکتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے کیونکہ کشمیر اور فلسطین میں تو مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ اپنا رنگ چھوڑسکتے نہ ہی مغرب کا رنگ اختیار کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ان کے دین اور ایمان کا مسئلہ ہے ۔