5مئی2022 جمعرات کو بھارت کے حد بندی کمیشن کی طرف سے مقبوضہ جموںو کشمیر کے لیے نئی سیاسی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کردی گئی ہے ۔اس نام نہاد انتخابی نقشے میں مقبوضہ جموں وکشمیرکی زمینی حقائق کو تبدیل کرکے اسے ایک عجیب جغرافیائی، مذہبی اور ثقافتی منظر نامے کے طورپر پیش کیاگیا۔ اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے والے مودی اینڈ کمپنی نے اس نئی حد بندی سے مسلم اکثریتی خطے مقبوضہ جموںو کشمیرکوایک ہندوسٹیٹ ڈ کلیئر کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مودی حکومت کااصل منصوبہ وادی کشمیر اور جموں کے پیرپنچال اورچناب وادی کے مسلمان علاقوںکی مسلم آبادی کو اقلیت میں بدلناہے۔ 1947میں ریاست جموںوکشمیر میں بھارت کے ناجائز قبضے اوراس کے جارحانہ تسلط کے بعدمقبوضہ کشمیر میں دو سیاسی کردار سامنے آئے تھے جن میں سے ایک بھارتی پالتوسیاسی دھڑہ تھا۔ یہ گروہ صاف طورپربھارت نوازتھاجواپنی ریاستی قوت اور بھارت سے پیوستہ اپنے ذاتی مفادات اورمراعات سے گٹھ جوڑ کر کے عوام کو ان کے بنیاد حق سے محروم کرنا چاہتا تھا تاکہ کشمیرکے سیاسی دسترخوان پرہمیشہ کے لئے ان کی اجارہ قائم رہ سکے۔آج یہ دھڑا ،اپنی صورتحال پرحیران اور ششدرہے اور یہ گروہ دھوبی کے کتے کی طرح آج نہ گھرکارہا نہ گھاٹ کا۔کشمیر کی سیاست کادوسرا دھارا بھارتی جبری قبضے کے خلاف اور بھارت سے آزادی کے حصول اور ریاست کے حقیقی نصب العین کی طرف بڑھنا چاہتا تھا تا کہ ملت اسلامیہ کشمیر ایک باوقارقوم کی حیثیت سے ایک وسیع ترمسلم دنیاکی طرف بڑھ سکیں اور اس دھڑے کا نام ’’تحریک محاذ رائے شماری‘‘تھااس نے کبھی بھارتی آئین کے تحت الیکشن لڑااورنہ ہی اسے مانا ۔ بھارت سے مل کرشیخ عبداللہ نے اس تحریک کی بیخ کنی کی۔ جس کے باعث کشمیرکا یہ دھارا روزاول سے ہی نحیف کمزور حیثیت میںتھا لیکن1990میں کشمیرکی حیران کن مسلح مزاحمت کی اہلیت کی حامل تحریک نے دراصل اسی محاذ رائے شماری تحریک سے نظریاتی اساس پائی اورگذشتہ تین دہائیوں سے نہتے ہاتھوںکشمیرپربھارتی ناجائز قبضے کے خلاف برسر جدوجہدہے اور آزادی کے مقاصد سے ہنوز دستبردار ہونے پر تیار نہیں۔بہرکیفً !بھارت کے حد بندی کمیشن نے مقبوضہ جموںوکشمیرکی نئی حد بندی میں7نام نہاد انتخابی حلقوں کا اضافہ کیا ہے جس میں جموں کو 6اور کشمیر کو صرف1 سیٹ دی گئی ہے۔ 2020 میں بھارتی سپریم کورٹ کی سابق جج رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں تین رکنی حلقہ بندی کمیشن تشکیل دیا گیا اور دو مرتبہ اس کی مدت میں توسیع کے بعد کمیشن نے 5مئی جمعرات کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی جس میں جموں کے لیے چھ اور کشمیر کے لیے فقط ایک نشست کا اضافہ کیا گیا۔بھارتی حد بندی کمیشن نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی نئی حد بندی کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کردی جس میں مقبوضہ جموںوکشمیرکی نام نہاد کٹھ پتلی اسمبلی کی 83 سیٹوں کو اب90 کردیا گیا ہے جس کے ساتھ ہی مقبوضہ جموں جس میں ریاست کی کل شرح آبادی کی44 فیصدحصہ بتایاگیاہے میںنام نہاد کٹھ پتلی اسمبلی کی سیٹوں کی تعداد 37 سے43 کردی گئی۔جبکہ وادی کشمیر جس میں ریاست کی کل شرح آبادی کا 56 فیصدحصہ بتایاگیاہے میں صرف ایک سیٹ کا اضافہ کیا گیا ہے اوریہاںنام نہاد کٹھ پتلی اسمبلی کی سیٹیں 46 سے بڑھ کر47کردی گئیں۔بھارت کے حد بندی کمیشن نے کشمیرچھوڑ کر چلے جانے والے کشمیری پنڈتوںکے لیے اسمبلی میں ایک خاتون سمیت کم از کم دو نشستیں مختص کرنے کی سفارش کی ہے جبکہ1947میں آزاد کشمیر سے جموں میں آنے والے ہندو رفیوجیوں کے لیے بھی اسمبلی میں نمائندگی دینے کی سفارش کی ہے۔کمیشن نے پہلی مرتبہ درج فہرست قبائل کے لیے نو اور درج فہرست ذاتوں کے لیے سات سیٹیں ریزرو کرنے کی سفارش کی ہے۔نئی حد بندی کے بعد جموں و کشمیر کے پانچ پارلیمانی حلقوں میں اب ہر ایک میں 18-18 اسمبلی حلقے ہوں گے۔ بھارتی حد بندی کیمشن کی یہ کشمیر یوں کو اقوام متحدہ کی سرپرستی میں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے سے محروم کرنے کی یہ ایک اورناکام ونامراد کوشش ہے نیزاس شرمناک اقدام سے انہیں مذہبی اورانسانی غرض تمام بنیادی حقوق سے مکمل طورپر محروم کرنابھی شامل ہے۔ ہمارے اس نقطہ نظرکوبھارت میں برسر اقتدارمودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی تصدیق کردی ہے۔ بی جے پی کے علاقائی صدر رویندر رینا جوبلاشبہ ایک پاگل کتے کی مانندہے نے جموں میں اس فیصلے کو تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی حد بندی ریاست میں ایک تاریخی اقدام ہے کہ جس سے وادی کشمیر اورجموں کے تمام شعبوں میں جموی ہندئووں کومساوی ترقی کے درواز ے کھلیں گے جواب تک محرومی کے شکار بنتے چلے آرہے تھے۔ 5اگست 2019 کومقبوضہ جموں وکشمیرکے لئے اٹھائے گئے اقدام کے ذریعہ مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ناجائزقبضے کومزید مضبوط کرنے اوراس پورے خطے کوہندوسٹیٹ بنانے کے لیے خطے کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسم کردیا تھا۔5اگست 2019 سے آج تک بھارت نے یہاں بیسیوں ایسے قوانین نافذ کیے جو اسے قبل یہاں کبھی نافذ العمل نہیں رہے ۔اب بھارت سے لائے گئے ان ہندئووں کو بھی مقبوضہ جموں وکشمیر کے باشندہ قراردیاگیاجوسرے سے یہاں کے نہیں ہیں اور یہ فیصلہ ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کے لئے کیاگیا ہے۔1947سے قبل مقبوضہ جموںاورکشمیرمیں مسلم اکثریتی علاقہ تھالیکن تقسیم برصغیراورقیام پاکستان کے وقت جموں میں مسلمانوں کا قتل عام کیاگیاجس کے بعدصرف مقبوضہ وادی کشمیرمسلم اکثریتی جبکہ ابھی بھی جموں کے پونچھ، راجوری، رام بن، ڈوڈہ، کشتواڑ اور بھدرواہ اضلاع میں 50فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے لیکن اس کے باوجود جموںہندو اکثریتی علاقہ قراردیاگیاتھا جبکہ لداخ کے بدھسٹ انکلیو پر مشتمل رہاہے۔ کٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ کی سرپرستی میں 2011 میں ہوئی مردم شماری کے مطابق لداخ سمیت جموںوکشمیر کی کل آبادی 1کروڑ 25 لاکھ ربتائی گئی ہے۔