مسلمانوں کو جس طرح مار بھگایا گیا اور اس جس انداز سے ان کی زمینوں پر قبضے کیے گئے اس پر اقوام متحدہ نے ایک نمائندہ بھیجا، فولکے برناڈوٹ نامی اس نمائندے نے 16 ستمبر 1948 کو اقوام متحدہ میں رپورٹ جمع کرائی جس میں لکھا کہ یہودی فلسطین کو دیے گئے علاقوں میں جا گھسے اور انہیں وہاں سے جبراََا بے دخل کر دیا۔ ان معصوم اور بے گناہ لوگوں کو واپسی کا حق دیا جانا چاہیے اور اگر یہ حق انہیں نہ دیا گیا تو یہ تقسیم کے اصول کو پامال کرنے کے برابر ہو گا۔ اس نے رپورٹ میں لکھا کہ صہیونیوں نے ان علاقوں میں بہت لوٹ مار کی ہے۔ رپورٹ جمع کرانے کے اگلے ہی روز فولکے برناڈوٹ کو ان کے معاون کرنل سیروٹ سمیت یروشلم میں قتل کر دیا گیا۔ یہ قتل اس حصے میں ہوا جہان صہیونیوں کا قبضہ تھا۔ برطانوی سیکرٹری آف سٹیٹ لارڈ موئین نے کہا کہ صہیونیوں کا اس زمین پر کوئی حق نہیں، اگلے روز ان کا بھی قاہرہ میں قتل کر دیا گیا۔ یہ قتل بھی صہیونی تنظیم نے کیا۔ برطانوی انتداب کے زمانے سے ہی مسلمانوں سے زمینیں چھیننے کا عمل جاری تھا اور یہ عمل برطانوی نگرانی میں ہوتا رہا۔ برطانیہ نے ایک قانون متعارف کرایا تھا جسے LAW 24 کہا جاتا تھا۔ یہ قانون ابھی تک بھی موجود ہے اور اسی کے ذریعے اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے محروم کیا اور کر رہا ہے۔ اس کے تحت جہاں بھی اس قانون کا اطلاق کیا جاتا ہے وہاں کے لوگوں کے تمام حقوق معطل ہو جاتے ہیں اور زمین کے مالکان کو اپنی زمینوں میں داخل ہونے کا حق نہیں رہتا وہ اس سے فوری طور پر محروم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جس زمین کو غیر کاشت شدہ قرار دے دیا جائے اس کے مالکان بھی اس زمین سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ سلطنت عثمانیہ کے دور کی سرکاری زمینوں کا ریکارڈ بھی صہیونی انتظامیہ کے پاس رہا اس لیے سرکاری زمینیں بھی یہودیوں کو الاٹ کی جاتی رہیں۔ یہ جھوٹا تاثر بھی پھیلایا گیا کہ فلسطین میں زمین ایسے ہی پڑی ہیا ور اس کا کوئی مالک نہیں اور دوسری جانب یہودی بے چارے دربدر پھر رہے ہیں اور ان کے پاس کوئی زمین نہیں اس لیے جن کے پاس زمین نہیں انہیں ان زمینوں میں آباد کر دیا جائے جن کا کوئی مالک نہیں۔اسرائیل شحاک جو ہبریو یونیورسٹی آف یروشلم کے پروفیسر ہیں، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہمیں اس بات پر قائل کرنے کے لیے کہ اسرائیل سے پہلے فلسطین تو ایک ویران اور متروک علاقہ تھا، گاؤں کے گاؤں تباہ کر دیے گئے، کنویں برباد کر دیے گئے اور ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا، گھر مسمار کر دیے گئے تا کہ آبادی کا کوئی نشان نہ ملے، یہاں تک کہ قبرستان اور مقبرے بھی تباہ کر کے ان کا نشان مٹا دیا گیا۔ فلسطین کے بارے میں اسرائیلی سوچ کیا ہے، یہ گولڈا مائر نے بہت واضح طور پر بیان کر دی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں: '' فلسطینی عوام جیسی کوئی چیز اپنا وجود نہیں رکھتی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم آئے اور ہم نے انہیںنکال باہر کیا۔ ان کا کبھی وجود تھا ہی نہیں''۔ نیشنل جیوش فنڈ کے ڈائرکٹر یوسف واعظ کا بیان بھی اسرائیلی پالیسی کی تفہیم میں مد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے: '' یہ بات ہم پر واضح ہونی چاہیے کہ اس ملک میں دو قوموں کے لیے گنجائش نہیں ہے۔ ار عرب اس کو چھوڑ دیں تو یہاں ہمارے لیے کافی کچھ ہے۔ اس کے علاوہ کرنے کا کوئی کام نہیں کہ ان کا صفایا کر دیا جائے ۔ ہمیں کوئی ایک گاؤں اور کوئی ایک قبیلہ تک نہیں چھوڑنا چاہیے''۔ اسی طرح اسرائیل کے عبرانی زبان کے اخبار Yediot Aharonot میں شائع ہونے والا یورام بن پورتھ کا موقف بہت اہم ہے۔ وہ لکھتے ہیں:.'' یہ اسرائیلی قائدین کا فرض ہے کہ عوام کے سامنے کچھ حقائق کو واضح طور پر جرأت کے ساتھ پیش کریں جو وقت کے ساتھ بھلائے جا چکے ہیں۔ ان میں سے پہلا یہ ہے کہ عربوں کو نکالے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کیے بغیر کوئی صہیونیت، نو آ بادکاری اور یہودی ریاست نہیں ہے''۔ اس سارے پس منظر کے بعد اگر آج کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی زمینیں خود بیچیں اور یہ فروخت ہی اسرائیل کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تو اس موقف کا علم اور دلیل کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں۔یہاں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے معاملے میں انٹرنیشنل لا کیا کہتا ہے؟ کیا فلسطینیوں کے گاؤں کے گاؤں جلا کر انہیں ان کی زمینیوں سے بے دخل کر کے نکال دینا اور ان پر قبضہ کر لینا انٹر نیشنل لا کی نظر میں ایک جائز اقدام ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 میں اس بارے میں چند اصول طے کر دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق: 1.کسی مقبوضہ علاقے سے آبادی کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔ 2.قابض قوت کو یہ حق بھی نہیں کہ کسی کو جبری طور پر کسی دوسرے علاقے یا کسی دوسرے ملک میں دھکیل دے۔ 3.آبادی کے جبری انخلا اور منتقل کرنے پر پابندی ہو گی چاہے اس کا مقصد کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ 4.اگر ایسے لوگ اپنے علاقوں سے کسی ناگزیر وجہ سے نکال دیے جائیں تو ان کی جلد از جلد واپسی کو یقینی بنایا جائے گا۔ 5.لوگوں کو ان کے اہل خانہ سے جدا نہیں کیا جائے گا۔ 6.ناگزیر وجوہات کے سبب کسی کو دوسری جگہ عارضی طور پر منتقل کیا جاتا ہے تو قابض قوت وہاں ان شہریوں کی رہائش، صحت، خوراک، تعلیم، وغیرہ کی ذمہ دار ہو گی۔ اسرائیل نے جہاں جہاں سے مسلمانوں کو نکالا، ان کی زمینوں پر قبضے کیے وہاں اپنے یہودی شہریوں کو لا بسایا۔ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 میں اس کی بھی ممانعت کی گئی ہے، وہاں لکھا ہے: '' قابض قوت اپنی شہری آبادی کو اپنے زیر قبضہ علاقے میں منتقل نہیں کرے گی '' ا نٹر نیشنل لا کا سب سے اہم حصہ کسٹمری انٹر نیشنل لا ہے۔ یہ دیگر معاہدوں کے برعکس کسی ملک کی توثیق کے محتاج نہیں۔ ہر ایک پر لازم ہے کہ ان کی پابندی کرے۔ اس کے کچھ Rules باقاعدہ وضع کر دیے گئے جن میں سے Rule 51 کے مطابق قابض قوت کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ کسی کی پرائیویٹ پراپرٹی پر قبضہ کر لے۔ Rule 51 میں لکھا ہے: private property must be respected and may not be confiscated جنگوں کے دوران مقبوضہ علاقوں میں لوگوں کی نجی پراپرٹی کا تحفظ انٹر نیشنل لا کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ یہی اصول آکسفرڈ مینوئل کے آرٹیکل 50 میں بھی موجود ہے۔ ہیگ ریگولیشنز کے آرٹیکل 46 کے مطابق بھی نجی جائیداد ضبط نہیں کی جا سکتی۔ لیکن جب معاملہ فلسطین کا ہو تو انٹر نیشنل لا کے یہ سارے ضابطے بے رحمی سے پامال ہو جاتے ہیں ۔( اختتام)