مکرمی! لاہور پولیس کا کم عمر اور بغیر لائسنس ڈرائیوروں کے خلاف شہر بھر میں کریک ڈاؤن جاری ہے اور گزشتہ چند روز کے دوران ایسے ڈرائیورز کے خلاف تین ہزار سے زائد مقدمات درج کئے جا چکے ہیں۔ کم عمری میں موٹر سائیکل یا گاڑی چلانے کی خواہش غیر فطری نہیں، ہر کسی کو یہ شوق ہوتا ہے لیکن پہلے زمانے میں ماں باپ بچوں کو اجازت نہیں دیتے تھے اور آج کل والدین روکتے نہیں ہیں۔موجودہ دور میں سڑکیں گاڑیوں سے بھری نظر آتی ہیں اور ٹریفک کا بہاؤ قائم رکھنا متعلقہ اداروں کے لئے امتحان بن کے رہ گیا ہے۔حالات کا تقاضہ ہے سڑکوں پر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اپنایا جائے،نئے ڈرائیوروں کو سڑک پر آنے سے پہلے ٹریفک قوانین سے مکمل آگاہی اور اِن کے احترام کی بھرپور تربیت دی جائے۔کم عمر بچوں کی گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کی بھاری ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے، بے جا لاڈ پیار اور دولت کی ریل پیل میں مہنگی گاڑیاں کم عمر بچوں کے حوالے کرنا ایک طرح کا "سٹیٹس سمبل" بن چکا ہے جس کا لامحالہ نتیجہ حادثات اور اْس کے بعد ہاتھ ملنے اورناقابل تلافی نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔بغیر لائسنس ڈرائیوروں کی بہتات کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے لاہور میں روزانہ سڑکوں پر آنے والی لاکھوں سواریوں کے زیادہ تر ڈرائیوروں کے پاس لائسنس ہی نہیں ہے اور جن کے پاس ہے اْن میں سے بھی زیادہ تر قوانین سے لاعلم ہیں-ہمارے ہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ لوگ قانون کی پاسداری کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے،بلکہ اس کی خلاف ورزی کو اپنی شان مانتے ہیں۔ایک مہذب معاشرے میں شہری اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں،دونوں میں سے کوئی ایک بھی کوتاہی برتے گا تو اس کا خمیازہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔(قاضی جمشیدعالم صدیقی، لاہور)