انتخابات کے بعد ہر سیاسی جماعت کا مقدمہ لڑنے والے موجود ہیں ، کوئی ہے جو اساتذہ کا مقدمہ بھی پیش کرسکے جنہیں الیکشن ڈیوٹی کے نام پر توہین ، تضحیک اور تذلیل کے ایک دانستہ عمل سے گزارا جاتا ہے اور اس کے بعد الیکشن کمیشن رسمی سی معذرت تو کیا شکریے کے دو لفظ بھی ادا نہیں کر پاتا ۔ کیا یہ اساتذہ انسان سے کم تر درجے کی کوئی مخلوق ہیں جن کی توہین ، تحقیر اور تذلیل الیکشن کمیشن اور ضلعی انتظامیہ کے لیے جائز قرار دے دی گئی ہے؟ میڈیا اور سوشل میڈیا، لمحے لمحے کی خبر دیتے ہیں ، بال کو پکڑتے ہیں اور اس کی کھال اتار دیتے ہیں ، لیکن اس ساری مشق میں یہ بات ایک لمحے کے لیے زیر بحث نہیں آ سکی کہ الیکشن ڈیوٹی کے نام پر اساتذہ کو کس تذلیل سے گزرنا پڑا اور یہ سب کس کی نا اہلی اور غفلت سے ہوا۔ ہماری بیوروکریسی اور ہمارے اہل سیاست کے ہاں یہ بات اب شاید ایک غیر تحریری اصول کا درجہ پا چکی ہے کہ اساتذہ اس معاشرے کے اجتماعی کمی کمین ہیں ، ڈینگی سے مردم شماری تک اور مردم شماری سے الیکشن تک انہیں ہر جگہ جھونکا جا سکتا ہے اور انہیں کسی مناسب سہولت کی ضرورت ہے نہ انسانی درجے میں احترام دینے کی۔ اہل اقتدار اور ان کی افسر شاہی کے خیال میں یہ بس یہ روبوٹ سے ذرا اوپر اور انسانوں سے کافی نیچے کی ایک مخلوق ہے جسے ہر بے ہودہ حکم پوری شان بے نیازی سے سنایا جا سکتا ہے۔ اس ساری مشق کا ھاصل چند سوالات ہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی جواب ہے تو ہم منتظر ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ الیکشن ڈیوٹی میں اساتذہ ہی کا انتخاب کیوں؟ دیگر بہت سارے محکمے موجود ہیں۔ نگاہ کرم ادھر کیوں نہیں جاتی؟ بے شک الیکشن ایک قومی ذمہ داری ہے لیکن کیا یہ صرف اساتذہ کی ذمہ داری ہے؟ کیا الیکشن کمیشن بتا سکتا ہے کہ ملک میں کتنے محکمے کام کر رہے ہیں اور الیکشن ڈیوٹی میں ان کا تناسب کیا تھا؟ دوسرا سول یہ ہے کہ الیکشن ڈیوٹی اندھا دھند کیوں لگائی جاتی ہے؟ عمر اور صحت سمیت جو سنجیدہ مسائل ہیں انہیں ملحوظ خاطر کیوں نہیں رکھا جاتا؟ کوئی سلیقہ ، تمیز اور ترتیب توہو۔ یہ کیسی افسر گردی ہے کہ اساتذہ کی فہرستیں منگوائو اور مجنون انداز میں ڈیوٹیاں لگاتے چلے جائو؟ حالیہ انتخابات میں نہ عمر دیکھی گئی نہ صحت۔ جو ریٹائرمنٹ کے قریب تھے انہیں بھی الیکشن میں جھونک دیا گیا۔ شوگر اور دل کے مریضوں کی بھی ڈیوٹی لگا دی گئی۔ کیا عمر کے اس حصے میں ، سنگین بیماریوں کے ساتھ اتنی سخت ڈیوٹی کامطالبہ کرنا بذات خود ایک مریضانہ رویہ نہیں؟ کوئی مریض ہویاپچاس کی دہائی کے آخری نصف میں ہو تو کیا ایسا آدمی اتنی سخت ڈیوٹی کرنے کے قابل ہوتا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن بتا سکتا ہے کہ اس نے کوئی ایسا باقاعدہ بندوبست کیوں نہیں بنایا کہ عمر رسیدہ اور بیمار افراد کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے اور اگر لگ جائے تو وہ باوقار انداز سے اطلاع دے کر اس ڈیوٹی سے استثنا حاصل کر سکیں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ خواتین اساتذہ کی الیکشن ڈیوٹی لگانے میں کوئی ایس او پی کیوں نہیں وضع کیا گیا؟ نانیوں اور دادیوں کی عمر کی اساتذہ کو ، جن کی ریٹائرمنٹ کو چند مہینے رہ گئے ہوں الیکشن ڈیوٹی میں جھونک دینا کیا انسانی اور اخلاقی رویہ ہے؟ خواتین کی ڈیوٹیاں ان کے شہروں سے دور کیوں لگائی گئیں؟ اگر الیکشن کمیشن میں اہلیت کا فقدان ہے یابیوروکریسی کوئی کام ڈھنگ سے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے تو اس کی سزا اساتذہ کو کیوں دی جائے؟ چوتھا سوال بھی الیکشن کمیشن اور بیوروکریسی کی انتظامی اہلیت سے متعلق ہے۔ خواتین اساتذہ کی ڈیوٹیاں شہر سے دور لگا دی گئیں۔ پھر ان پریزائڈنگ افسران سے کہا گیا کہ ایک دن پہلے آ کر سامان لے جائیں اور رات پولنگ سٹیشن پر گزاریں۔ سامان لینے کے لیے یہ اساتذہ دن گیارہ بجے پہنچے تو کچھ کو شام ہوگئی اور کچھ کواس سے بھی تاخیر۔ اس بد انتظامی کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا سامان کی ترسیل کا کوئی شریفانہ طریقہ نہیں ہو سکتا اور کیا اساتذہ کو گھنٹوں لائنوں میںکھڑے کرنا ایک موزوں طرز عمل ہے؟ جنہوں نے صبح سارا دن الیکشن ڈیوٹی دینی ہے ان پریزائڈنگ افسران کے لیے پولنگ سٹیشنوں پر رہائش کے کیا انتظامات تھے؟ کاش کوئی پٹواری وہ واٹس ایپ میسج الیکشن کمیشن کو بھیج دے جو انہیں بھیجے گئے کہ یہ یہ کام آپ نے کرنے ہیں ورنہ کاررووائی کے لیے تیار رہیں۔کیا حسن انتظام کا معیار یہ ہوتا ہے کہ سٹاف کو تذلیل اور توہین کے عمل سے گزارو اور خود پریس ٹاک کر کے سرخرو ہوتے رہو؟ پانچواں سوال نتائج کی ترسیل سے تھا۔ پچھلے دن اور پھر الیکشن والے دن کے تھکے ہارے پریزایڈنگ افسران جب نتائج آر اوز کو دینے پہنچے تو آگے سے لمبی لائنیں لگی تھیں۔ بدنتظامی کا یہ عالم رہا کہ خواتین پریزائڈنگ افسران ساری رات وہیں کھڑی رہیں کہ عالی جاہ آر او صاحب تشریف لاویں ، نتائج وصول فرماویں اور وہ گھر جا سکیں۔ بڑی تعداد میں خواتین اساتذہ جب رزلٹ جمع کرا کرگھر پہنچیں تو صبح ہوچکی تھی یا ہونے والی تھی۔ اس سردی کے عالم میں خواتین اساتذہ نے ووٹوں کے بورے خود اٹھائے ہوئے تھے ساتھ سٹاف تک نہیں تھا ۔ انہوں نے اکثر مقامات پر رات شامیانوں تلے اور کھلے آسمان کے نیچے گزاری۔واش روم تک کا کوئی مناسب بندوبست نہیں تھا۔ سوال وہی ہے کہ الیکشن کمیشن اور افسر شاہی کے خیال میں کیا اساتذہ انسان سے کم تر درجے کی کوئی مخلوق ہیں ؟ چھٹا سوال موبائل سروس کی بندش سے متعلق ہے۔ خواتین پولنگ سٹاف میں سے جن کی ڈیوٹی شہروں سے باہر لگی موبائل سروس کی بندش کی وجہ سے پولنگ ختم ہونے کے بعدان کا اپنے بھائی ، باپ اور شوہر سے رابطہ ممکن نہ رہا۔ الیکشن کمیشن کے افسران نے تو شان بے نیازی سے فرما دیا کہ فون کی بندش سے ان کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑا لیکن کیا بابو لوگوں کو کوئی احساس اور اندازہ تھا کہ پولنگ کے خواتین سٹاف کے لیے اس سے کیسے کیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ کیا اتنا بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ پولنگ سٹیشن پر عارضی انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کر دی جاتی تا کہ سٹاف کا گھر والوں سے رابطہ ہو پاتا۔ یہ وہ چند مسائل ہیں جن کا اظہار اساتذہ سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں لیکن ان کی کوئی سن نہیں رہا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ رات بھر آر اوزکے دفاتر کے باہر لائنوں میں لگی خواتین پریزائڈنگ افسران کے مسائل پر کسی چینل نے ایک ٹکر تک نہیں چلایا حالانکہ میڈیا ہر مرکز پر موجود تھا۔ سب کے نزدیک خبر صرف ایک تھی کہ کس نے کتنے ووٹ لیے۔ اس سارے عمل میں پولنگ سٹاف کس اذیت ،تذلیل ، توہین اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہوا یہ سرے سے کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ کیا الیکشن کمیشن کے پاس کوئی جواب ہے؟ اگر جواب نہیں ہے تو پھر چیف الیکشن کمشنر کو اساتذہ سے معذرت کرنی چاہیے اور شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ان کی غفلت کا بوجھ اساتذہ کو اٹھا پڑا۔