آئین کی بحالی کے تیرہ سال بعد بھی جمہوریت کا اونٹ کسی کروٹ سکون سے بیٹھتا نظر نہیں آتا۔ کمر توڑ مہنگائی اور سر پر منڈلاتے انتخابات حکومت کی طویل العمری پر سوالیہ نشان نہیں ہیں تو قواعد و ضوابط کا معاملہ کیوں؟ جب اداروں کی حدود و قیود متعین ہیں اور یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ وہ پارلیمان کے ماتحت ہونگے تو کنفیوژن کس بات کی؟ لیکن ایک تو یہ کنفیوژن ہے دوسرے اس کفنیوژن کو ہوا دینے والے بھی آزاد ہیں۔ ہمارے سروں پر کنفیوژن کی تلوار لٹکادی گئی ہے۔ جسکا دل کرتا ہے، بغیر کسی سیاق و سباق کے، منہ اٹھا کر بات کردیتا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے بھی کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے۔ مہنگائی ہے، حکومت کی ساکھ داو پر لگی ہے لیکن جمہوریت کوکوئی خطرہ نہیں۔ کسی ادارے کے سربراہ کی تقرری سے متعلق قواعد و ضوابط پر غلط فہمی سے اس ناہنجار جمہوریت کو کہاں سے جان کے لالے پڑ گئے؟ مسئلہ یہ ہے کہ نہ ہی ہم جدید ریاست کی نوعیت اور کردار کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں اور نہ ہی جمہوریت کے لوازمات اور آداب کو۔ اگر اس حوالے سے ہمارے تصورات واضح ہوں تو شاید شرپسند عناصر کو آگ لگانے کا موقع نہ ملے۔ کسی کو یاد نہیں رہیں اینکرز کے ساتھ عسکری اور سیاسی قیادت کی طویل ملاقاتیں کہ اب پاکستان کو نئی سمت میں لے کر جاناہے، غلطیاں بہت ہوگئیں لیکن اب گنجائش نہیں ہے کہ نہایت تیزی سے بدلتا سٹریٹجک ماحول ایسا تقاضا کر رہا ہے؟ یہ بھی طے ہوا تھا کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں گے اور آئین و قانون کی بالادستی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ یہ وقت وہ تھا جب امریکہ کا افغانستان سے فوجی انخلا سامنے نظر آرہا تھا۔ ہم کہہ رہے تھے کہ ہم تزویراتی گہرائی کے گرداب سے نکل آئے ہیں اور یہ کہ ہم جیو اکنامکس کے اصولوں پر چلیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب قصہ پارینہ بن چکے ہیں اور ہم اپنی پرانی ڈگر پر واپس آچکے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم نہ تو جدید ریاست کی نوعیت اور تقاضوں کو سمجھ پائے ہیں اور نہ ہی شہریت کے آفاقی تصور کو جو ریاست کو معاشرے کے ساتھ جوڑتا ہے۔ ہم یہ فیصلہ بھی نہیں کر پائے کہ ریاست کو معاشرے کے آگے چلنا ہے یا پیچھے۔ چوہتر سال ہوگئے ہیں لیکن ریاست کا معاشرے کے ساتھ رشتہ مضبوط نہیں ہوسکا۔ استعماری دور کا انتشاری ایجنڈا ہے کہ اس کے کندھوں پر لدا ہوا ہے۔ یہی کہ اسے اپنے مخصوص نظریات اور مفادات کے لیے الٹ پلٹ دو۔ تہذیب، روایات ، ثقافت، زبان کچھ بھی اہم نہیں ہے۔ دریاوں کا رخ موڑ کر صحراوں میں بہاریں لاو، صنعت کو ترقی دو، نئے شہر بناو اور متوقع خوشحالی کی حفاظت کے لیے مضبوط دفاعی حصار۔ مسئلہ یہ ہوا کہ ہم برطانوی عہد کی پالیسیوں پر آنکھیں بند کرکے چل پڑے۔ گندم کی لالچ میں ہم دالوں اور خوردنی گھی سے محروم ہو بیٹھے، جنگلات کاٹ لیے اور چراگاہوں کو برباد کر ڈالا۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ شہروں کی غلاظت کا کیا کرنا ہے۔ نہ صرف نالے، ندیاں اور دریاوں کو آلودہ کردیا گیا بلکہ زیر زمین پانی بھی زہریلا کردیا ہے۔ پانچ دریاوں کی سرزمین میں صاف پانی کمیاب ہوگیا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل آبادی کم تھی، برطانوی ہند لوگوں کے مذہبی اور ثقافتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا تھا، قبیلے اور برادریاں اپنے اندرونی معاملات میں اس وقت تک آزاد رہتی تھیں جب تک وہ بغاوت کے راستے پر نہیں چلتی تھیں۔ یعنی اگر کوئی کارِ سرکار میں مداخلت نہیں کرتا تھا تو وہ آزاد تھا۔ چھوٹے چھوٹے شہرتھے، امن و امان کے قیام کے لیے عدالتیں موجود تھیں، مہنگائی کے کنٹرول کے لیے مجسٹریٹ موجود تھے، صحت وصفائی کا پورا نظام۔ تعلیم و تربیت کے لیے تعلیمی ادارے اور صحت کے لیے اسپتال۔ پاکستان جب بنا تو پہلا سوال ہی یہی اٹھا کہ شہریت کا مطلب کیا ہے۔ اب جمہوری راستے سے آزادی ملی تھی تو اس میں دورائے نہیں تھیں کہ شہریت کا آفاقی تصور ہی اپنایا جائے گا۔ یعنی ریاست کی نظر میں لوگ برابر تھے چاہے انکی نسل اور عقیدہ کچھ ہو۔ اوراس بات کی مکمل وضاحت قا ئد اعظم کے پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں ہوچکی تھی ۔لیکن ہم نے عملیت پسندی پر نظریات کو ترجیح دی۔ استعماری عہد کے نظریہ ترقی کو آگے بڑھانے کے شوق میں امریکہ کی گود میں جا بیٹھے۔ امریکہ کو اشتراکی ریاست (سوویت یونین) سے مقابلے کے لیے مذہبی ریاست کی ضرورت تھی۔ ہم نے جمہوریت کو خیر باد کہہ دیا اور شہریت کے آفاقی تصور کو بھی۔ ڈالر زکے زور پر ہم نے ڈیم بنائے، محدود پیمانے پر صنعتیں کھڑی کیں ، سڑکوں کے جال بچھائے اور ایٹمی طاقت بن گئے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے ہم نے ملک کی جڑوں میں پانی چھوڑدیا۔ ہماری آبادی چار گنا بڑھ چکی ہے لیکن ہم نے نہ ہی طرز حکمرانی بدلا اور نہ ہی معیشت کو پائدار بنیادوں پر استوار کیا۔ غیر ملکی ایجنڈے پر چلتے چلتے ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے ہیں اور باقی ماندہ انتشار اور بدامنی کے نشانے پر ہے۔کیا ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا اور ہم خود کو سدھارنے میں سنجیدہ ہیں؟ پچھلی ایک دہائی سے زیادہ جمہوری تجربے کے بعد اس سوال کا جواب بہت واضح ہے کہ جس گہرائی میں ہم گرچکے ہیں ، اس سے نکلنا اگرچہ ناممکن نہیں تو اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ مسئلہ نیت کا نہ بھی ہو تو فکری مغالطے کا ضرور ہے۔ یہ فکری مغالطہ ہی تو ہے جس کی وجہ سے ہم بین الاقومی مالیاتی اداروں کے جال میں پھنسے ہیں۔ ہم نے جن وعدوں اور معاہدوں کے بدلے میں قرضے لیے ، اگر ان پر اپنے تئیں عمل کرلیتے تو قرضہ لینے کی نوبت نہ آتی۔ ہم نے جمہوریت اپنائی لیکن اتنی جتنا کہ اشرافیہ کو فائدہ ہو۔ پارلیمانی انتخابات ہوں لیکن مقامی حکومتوں کے نہیں۔ سڑکیں اور بلند وبالا عمارتوں پر پیسہ خرچ ہو، جہازی سائز بیوروکریسی اور ان کی مراعات ہوں، لیکن صحت و تعلیم کے لیے کچھ نہ ہو، ٹیکس عام لوگوں سے لیے جائیں اور ان کو خرچ کرنے کا اختیار مٹھی بھر امیر طبقے کے ہاتھ میں رہے۔ ہمارا حال اس وقت اس فرانس جیسا ہے جو انقلاب کے دہانے پر کھڑا تھا۔ جنگیں سر پر تھیں ، عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے کراہ رہے تھے اور اشرافیہ اپنی مراعات سے دستبردار ہونے کے لیے تیا ر نہیں تھی۔ بھوک سے بلکتے ،محل کے سامنے جمع، ہجوم کو دیکھ کر ملکہ معصومیت سے سوال کر رہی تھی کہ یہ لوگ احتجاج کرنے کی بجائے گھر بیٹھ کر آرام سے کیککیوں نہیں کھا لیتے۔