’’مجھے اچھی طرح یاد ہے اس دن وہ کسی فوٹو شوٹ پر جم کاربٹ نیشنل پارک میں تھے جہاں ’’سگنل‘‘( فون)نہیں ہوتا ہے اور انہوں نے مجھے فون کیاتو میں نے ان سے کہا کہ یہ ہماری غلطی سے ہوا ہے اگر ہم انہیں طیارے دے دیتے تویہ نہیں ہوتا تو انہوں نے ہمیںچپ رہنے کے لئے کہا ۔۔۔ہم نے ایک دو چینل پر یہ بات کہی لیکن انہوں نے کہا یہ ہماری چیز ہے ہمیںبولنے دو تم چپ رہو‘‘ یہ الفاظ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کے اہم رہنما سابق گورنر مقبوضہ کشمیر ستیہ پال ملک کے 2019میں ہونے والے ’’پلوامہ حملے ‘‘کے بارے میں ہیں۔انہوں نے پلوامہ واقعے کا ذمہ دار انڈین حکومت کو ٹھہرایا ہے اور ہفتہ بھر پہلے نشر ہونے والے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر حملہ سسٹم کی ناکامی اور لاپرواہی تھی۔ انہوں نے سی آر پی ایف کے اہلکاروں کی نقل مکانی کے لئے حکومت سے ہوائی جہاز مانگے تھے،وزارت داخلہ نے نہیں دیئے یہ وہی پلوامہ کا واقعہ ہے جس نے پاکستان او ر بھارت کو تقریبا کھلی جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیاتھا ،لیت پورہ،پلوامہ میں 14فروری 2019کو بھارتی میڈیا کے مطابق بارود سے بھری گاڑی بھارتی پیرا ملٹری فوجی دستے سی آر پی یف کے قافلے میں گھسی اور ایک بس کے پرخچے اڑا گئی، دھماکے میں چالیس فوجی جوان جان سے گئے ،گورنر ستیہ پال ملک نے یہ انکشاف 67سالہ بھارتی صحافی کرن تھاپر کو دیئے گئے انٹرویو میں کیا ستیہ پال ملک کا انٹرویو کیا ہے، سیدھی سیدھی چارج شیٹ ہے وہ 2018 ،2019میں مقبوضہ کشمیر کے گورنر رہے ،اسی عرصے میں پلوامہ کا واقعہ ہوا،اسی بارے میں ستیہ پال ملک اپنا جی ہلکا اور گھر کا بھیدی ہو کر لنکا ڈھا رہے تھے وہ بھارتی خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور مودی حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال کے ہم مکتب بھی رہے ہیں اور انہیں اپنا بے تکلف دوست کہتے ہیں انٹرویو میں کہنے لگے اجیت ڈوول نے بھی مجھے کہا’’آپ مت بولئے آپ چپ رہئے‘‘ ستیہ پال ملک مزید کہتے ہیں کہ میں اب آپ سے شیئر کرسکتاہوں کہ مجھے لگ گیا تھااب ساراذمہ پاکستان کی طرف جانا ہے تو چپ رہئے‘‘اس موقع پر کرن تھاپر نے لقمہ دیا کہ یعنی ایک طرح سے سرکار کی پالیسی تھی کہ پاکستان پر الزام لگاؤہم لوگ اس کا کریڈٹ لیں گے اور یہ ہمیںانتخابات میں مدد دے گا؟‘‘ اس کا جواب ستیہ پال ملک نے اثبات میں دے کر دھماکہ کردیابھک سے آگ لگ گئی لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار حکومت نے اس آگ پر بھیگا ہوا کمبل ڈال دیا، یہ انٹرویو جانے کہاں گیا ، نیوز چینلز نے اس اہم گواہی سے ایسی بے اعتنائی برتی کہ میڈیا کی زبان میں گویااسے KILL کر دیاگیا،انڈین یوتھ کانگریس کے صدر سری وانس بی وی نے جل بھن کر کہہ دیا کہ ملک کے سارے بڑے چینلز کوواٹس اپ آگیا ہے ،ستیہ پال ملک کے بیان کو دفن کرنے کا حکم جاری ہوچکا ہے انہوں نے کہا کہ سبھی بڑے چینلز اور نام نہاد صحافیوں کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب جمہوریت زندہ ہے نہ صحافت ۔ ستیہ پال ملک کا کہنا ہے کہ ریزرو فورس کے جوانوں کو طیارہ دے دیا جاتا تو یہ سانحہ نہ ہوتا ،جو بات ستیہ پال ملک کہہ رہے ہیں وہ نئی دہلی میں بیٹھے مودی نے کیوں نہ سوچی ؟کیا ان تک انٹیلی جنس رپورٹیں نہیں پہنچی تھیں کہ حریت پسند متحرک ہیں وہ جانتے بوجھتے چپ رہے کہ کچھ ہواور اس کا الزام پاکستان پر دھر کرقریب کھڑے الیکشن میں دیش بھگت بن کر ووٹ بہا لے جائیں،یہ وہی پلوامہ کا واقعہ ہے جسے بنیاد بنا کر بھارتی ائیر فورس نے پاکستانی سرحد میںگھسنے کی غلطی کی اور انڈین ائیر فورس کے آفیسر ابھی نندن کی درگت بنوائی،اس انٹرویو میں کھلے اعتراف اور انکشاف پر بھارت میں مودی حکومت کا ’’سنسر ‘‘ تو سمجھ آتا ہے لیکن یہاں پاکستان میں ایسی کیا مجبوری رہی کہ کسی نیوز اینکر نے اس پر زباں نہیں کھولی ہماری وزارت خارجہ نے بھی کئی دنوں کے بعد اس پر ردعمل دیا ہمارا میڈیا ٹاک شوز میں وہی الیکشن ، زمان پارک ، مقدمے ، سپریم کورٹ کے فیصلوں کی من چاہی تشریح، لیڈروں کی بڑھکیں دھمکیاں اور دعوے سناتا رہا چسکے لیتا رہا۔۔۔پانچ چھ ماہ کے نیوز شوز اٹھا کر دیکھ لیں سیاست سیاست اور بس سیاست ۔۔۔ریاست کی کسی کو فکر نہیں یعنی ریاست ترجیح ہی نہیںسیاست کے بار ہ مصالحے سب کو چاہئیں کہ مال بیچنا ہے ۔ اس انٹرویو کے آس پاس ہی بلوچستان نیشنل آرمی کا بانی گلزار امام عرف شمبے گرفتار کیا گیا، شمبے بلوچ ریپبلکن آرمی میں برہمداخ بگٹی کا نائب رہا ہے، شمبے بلوچ علیحدگی پسندوں میں اہم مقام اور نام رکھتا ہے، اس کو گرفتار کرنا غیر معمولی کام ہے،انٹیلی جنس ادارے اک عرصے سے شمبے کی تلاش میں تھے،شمبے بھارتی اداروں سے برابر رابطے میں تھاجو افغان پاسپورٹ پر بھارت کے دورے بھی کر چکا ہے میٖڈیا سے متعلق ہوتے ہوئے یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ میڈیا ہاؤسز حریت کشمیر کے لئے کیا کاوشیں کر رہے ہیں بلوچستان کا تو نام ہی نہ لیں ، عجیب اتفاق کہ لاپتہ افراد کا ذکرتو پھر بھی مل جاتا ہے لیکن علیحدگی پسندوں کی فہرست میں من گھڑت اضافوں پر شائد ہی کوئی کبھی بولتاہو،یہ وہ سچ ہے جسے اک ’’تاثر‘‘ نے دبا رکھا ہے،نیوز چینلز میں تو چلیں پھر بھی کچھ نہ کچھ دکھائی دے جاتا ہے لیکن ہمارا انٹرٹینمنٹ میڈیا عاشقی ، ساس بہو کے گرد گھومتی خاندانی سازشوںکے حصار سے باہر نہیں نکل رہا، بامقصد اور حب الوطنی پر مبنی ڈرامے تو اب ماضی کا قصہ بن چکے کبھی مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی پر کیا ہی خوبصورت ڈرامے بنا کرتے تھے اب کوئی زحمت نہیں کرتا اگر یہی ابھی نندن ، کل بھوشن ،پاکستانی شناختی کارڈ کے ساتھ بھارت کے ہاتھ لگا ہوتا تو آج بمبئی کی فلم نگری درجن بھر فلموں کے مہورت کر چکی ہوتی، بات ترجیحات کی ہے اورہم ترجیحات میں بھی کنفیوژ ہیں !