امریکی کانگریس میں اپوزیشن جماعت کے بیس ارکان نے افغانستان کے حوالے سے ا یک بل پیش کیا ہے جس کے ذریعے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیسے بے سروسامان طالبان جن کی حکومت کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کے الزام میں فوجی حملے کے بعد ختم کردیا تھا، انہوں نے بغیرکوئی گولی چلائے، غیر ملکی فوجیوں کے انخلا مکمل ہونے سے دو ہفتے پہلے، کابل پر دوبارہ اپنی حکومت قائم کرلی۔ امریکہ کی تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس تین لاکھ افغان فوج موٹر سائیکل سوار طالبان کی جارحیت کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور جدید ترین ہتھیا ر طالبان کے ہاتھ لگ گئے۔ ایک ہفتے کے اندر نہ صرف تیس سے زیادہ صوبائی دارلحکومتوں پر طالبان قابض ہوئے بلکہ ان کے کابل میں داخل ہونے سے پہلے ہی افغان صدر ملک سے فرار ہوچکے تھے۔ طالبان سے پچھلے سال دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں ہونے والا فوجی انخلا ہی افراتفری کا شکار ہوگیا۔ ہزاروں امریکی اور یورپی شہری اور ان کے مددگار کابل ایئر پورٹ پر پھنس کر رہ گئے۔ ایسا ہرگز نہ ہوتا اگر افغان فوج طالبان بائیڈن انتظامیہ کی توقعات پر پورا اترتی اور مہنیوں نہیں تو چند ہفتوں ہی طالبان کی مزاحمت کرلیتی۔ چونکہ بل پیش کرنے والوں کا تعلق حزب (ریپبلکن پارٹی) اختلاف سے ہے، حکمران ڈیمو کریٹک پارٹی کی کوشش ہوگی کہ وہ اس پر ہونے والی بحث کا رخ پچھلے سال دوحہ میں طے پانے والے ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان (اماراتِ اسلامی) کے درمیان معاہدے کی طرف رکھیں تاکہ افغانستان سے انخلا کو پچھلی حکومت کی پالیسی کا تسلسل ثابت کیا جاسکے۔ جہاں تک کابل سے بے ہنگم فوجی انخلا کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کئی تاویلیں گھڑی جاسکتی ہیں جس میں انٹیلی جنس کی ناکامی اور بیرونی ہاتھ کا ملوث ہونا اہم ہیں کہ سب اندازوں کے برعکس ہوا ۔ کابل میں پھنسے امریکی یورپی شہری بحفاظت آجائیں پھر بھی درجہ حرارت کافی نیچے آجائیگا۔ صدر بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انہیں افغانستان سے انخلا کے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ۔ ان کے پاس دو ہی راستے تھے۔ یا تو وہ فوجی انخلا کا فیصلہ اگلے صدر پر چھوڑ جاتے یا پھر وہ اس معاہدے پر عملدرآمد کرڈالتے جو طالبان نے پچھلے سال امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکہ کو ہرسال افغانستان پر کتنا خرچ کرنا پڑ رہا تھا۔ یوں اگرچہ افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ نے کیا تھا لیکن بائیڈن نے اقتدار میں آکر جس نئی دفاعی پالیسی کی داغ بیل ڈالی تھی ، اس کا مقصد چین اور روس کا گھرائو کرنا تھا اور اس کا تقاضا تھا کہ افغانستان سے نکلا جائے۔ دوسری طرف امریکی شہریوں کو بہرحال بتانا ہے کہ پچھلے بیس سال میں اٹھائے گئے مالی اور جانی نقصان سے کیا حاصل ہوا ہے۔ اگر اہداف اور مقاصد میں ناکامی ہوئی ہے اور وہی طالبان اقتدار میں آگئے ہیں جنہیں نکالنے کے لیے اتنا تردد کیا گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ واضح طور پر سینٹ میں پیش کیا گیا بل، جس کے بارے میں حکومتی پارٹی کا کہنا ہے کہ اسے اس پر اعتماد میں نہیں لیا گیا، ریکارڈ کی درستگی کے لیے ہے۔ اگر بل پاس ہوتا ہے تو سیاسی پارٹیوں اور پینٹاگون کا ایک مشترکہ بیانیہ سامنے آئے گا۔ بل پر مہینوں بحث ہوسکتی ہے اور اس کا پاس ہونا بھی یقینی نہیں ہے۔ پچھلے ہفتے چیئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف مارک ملی نے سینٹ آرمڈ فورسز کمیٹی کو اپنی بریفنگ میں بتایا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں تزویراتی شکست ہوئی ہے اور یہ بھی کہ انہوں نے صدر بائیڈن کو مشورہ دیا تھا کہ ایک پر امن انخلا کے لیے کم ازکم پچیس سو امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی ضروری ہو گی۔ جنرل مارک ملی بیان جو بائیڈن کے پچھلے مہینے ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنائے گئے اس اصرار کی کی نفی کرتے ہیں کہ فوج نے انہیں افغانستان میں امریکی فوجی رکھنے کا نہیں کہا تھا۔ یوں ایک تو حکمران پارٹی انٹیلیجنس ناکامی کا بہانہ نہیں بناسکتی دوسرے امریکی صدر کا جھوٹ بھی پکڑا گیا اور اس پر لے دے ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں پارٹیاں اس بات کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہ امریکی فوجی طالبان سے معاہدے کی وجہ سے صحیح وسلامت گھر واپس آگئے ہیں، بل پاس کروالیں۔ یہ پریشان کن ہوسکتا ہے کیونکہ اس صورت میں پارٹیاں اپنی اور اداروں کی کھال تو بچائیں گی لیکن افغانستان میں سٹریٹجک ناکامی کا ملبہ کسی اور پر ڈال دیں گی۔ اسی تناظر میں افغانستان پر سینٹ بل کی خبر پر پاکستان میں کافی ہاہا کار مچی ہوئی ہے کیونکہ اس میں ملک کا نام لیا گیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکی حملے سے لیکر فوجی انخلا تک کہیں پاکستان نے، جس نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا ہوا تھا، طالبان کے ساتھ اس عرصے میں کسی قسم کا تعاون تو نہیں کیا تھا اور یہ بھی کہ پنجشیر وادی پر طالبان کے قبضے میں کہیں اس کا کوئی کردار تو نہیں تھا۔ واضح طور پر یہ ایک مفروضہ ہے جسے ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا ہے اسے شکوہ کا نام دیا جاسکتا ہے! یعنی: جب جب امریکہ کو ضرورت ہوتی ہے پاکستان اس کا ساتھ دیتا ہے لیکن مطلب نکلتے ہی وہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔ چلیں منہ موڑ لیں ، ہماری قربانیوں کو نظر انداز کردیں ، لیکن یہ تو نہ کریں کہ ہمارے ازلی ' دشمن 'کے بہکاوے پر ہمارے خلاف بھی ہوجائیں! اب اگر کوئی اس بیانیے کو سفارتکاری تقاضوں کی روشنی میں دیکھے یا پھر قومی حمیت کے تناظر میں ،تو چپ رہنے کا ہی مشورہ دے گا کہ خود مختار قوموں کے حکمران کسی دوسرے ملک کے مفاد کی خاطر کبھی اپنے عوام کی قربانی نہیں دیتے اور یہ بھی کہ ایسا کہنا سفارتی آداب کے خلاف ہے کہ کوئی ملک دوسرے کو بہکا سکتا ہے۔ ایسے باتیں کرنے سے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے حکمران اس قوم کا بازو ایک بار پھر سے 'مروڑانے 'کی دعوت دے رہیں۔ وہ بھی اس وقت جب امریکیوں کو اپنی نئی حکمت عملی کے لیے ہوائی اڈے چاہئیں، ڈالر آسمان کی بلندیوں کو چھورہا ہے اور عوام مہنگائی کے ہاتھوں حواس باختہ ہوچکی ہے!