کیا پاکستان سری لنکا بن سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سیدھا نہیں مگر ایک بات حتمی ہے کہ قرض کی مے کا انجام تہی دستی اور دیوالیہ پن ہوتا ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ ہر فرد اور ریاست کو اپنی جیب اور حیثیت کے مطابق رہنا چاہیے۔مالدار اور خوشحال وہ ہے جس کی جیب میں پیسہ یعنی نقدی ہے، نقدی کی نایابی دیوالیہ پن کی نشانی ہے۔ پاکستان کا نقدی خانہ تجوری یعنی بنک دولت پاکستان SAPبھی عالمی طاقتوں کے حوالے کیا جا چکا ہے۔اگر ایک فرد یاگھرانہ دن میں 100روپے کمائے اور ستر روپے خر چ کرے وہ امیر ہے اور اگر وہ بقیہ 30روپے کو کمائی کے ذرائع میں استعمال کرے تو نقدی یعنی پیسے بڑھ بھی سکتے ہیں۔اگر اس کے برعکس ایک فرد یا گھرانہ ایک ہزار روز کمائے اور ڈیڑھ ہزار روز خرچ کرے تو وہ ہمیشہ غریب رہے گا۔ نیز ادھار اور قرض سے حاصل کردہ سہولت عارضی مگر حتمی بربادی لاتی ہے ۔یہی حال قوموں اور ملکوں کا ہے۔ مغرب نے ذرائع ابلاغ (میڈیا)کے ذریعے دنیا ایک گائوں Globle villageکا تصور پیدا کیا اور عالمگیری اجارہ داری کو عالمگیریت (Globolization) کا نام دیا اور اس طرح غریب ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے امراء اور مالدا مافیا کو عالمی مصنوعات کا رسیا بنا کر خوب لوٹا اور دنیا میں سرمایہ داری کلچر کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں امراء کو غریب ہمسایہ اور رشتہ دار نظر نہیں آتا بلکہ بل گیٹس اوربڑی شاندار گاڑیاں نظر آتی ہیں۔قرآن کا فیصلہ ہے کہ جب کوئی فرد اور قوم انسانی ہمدردی کے شعور سے محروم ہو جاتی ہے تو اللہ اس قوم اور ملک کے امراء کو دولت بازی کے کھیل میں مصروف کر دیتا ہے۔ دور حاضر میں چین دنیا کا غالباً پہلا ملک ہے جس نے ترقی کا آغاز کار چھوڑ کر سائیکل سے کیا۔ نیز چین نے قرض کی مے پینے کے بجائے cash a caryکے اصول پر کاروبار اور کمائی کو استوار کیا اور یہی کاروباری اصول چین کی عالمگیر تجارتی اور کاروباری زندگی کا جزو اعظم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سری لنکا کی ماضی کی مالی اور خوشحالی یا موجودہ بدحالی کے مغربی انداز کے اعداد و شمار پاکستان سے بہتر تھے۔ اگر پاکستان کے معاشی اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو پاکستان کا حال سری لنکا کے دیوالیہ ہونے سے پہت پہلے ظہور پذیر ہو جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔جبکہ پاکستان جیسی نظریاتی ریاست نے تحریک پاکستان کے اغراض و مقاصد کو نظر انداز کر کے مغرب کی عالمی یکجہتی کی پالیسی کو آنکھیں بند کر کے قبول کر رکھا ہے ۔پاکستان میں سہولت عالمی معیار کی ہے اور کمائی ایک فرد اور گھرانے کے لئے بھی نہیں ہے آج پاکستان مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرح عالمی صارف ہے ہی نہیں ۔جبکہ پاکستان کا خواندگی معیار بھی سری لنکا کے 92فیصد خواندگی معیار کا پاسنگ بھی نہیں۔ سری لنکا کے دیوالیہ پن کی کئی وجوہات اور اسباب ہیں جس کی تفصیل ایک مختصر کالم میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہے مگر راقم اپنے تئیں کوشش کریگا کہ سری لنکا اور پاکستان کا سٹریٹجک موازنہ کر کے کوئی نتیجہ اخذ کرے۔ سری لنکا ایک جزیرہ ہے۔آبادی کی اکثریت بدھ ہے جبکہ شرح خواندگی 92 فیصد سے زائد ہے۔سری لنکا کی جنوبی ایشیا اور سارک تنظیم میں اہمیت ہے۔بھارت سری لنکا کو اکھنڈ بھارت کا حصہ سمجھتا ہے جبکہ پاکستان کی ضیاء الحق انتظامیہ نے اکھنڈ بھارت یعنی بھارت کے استعماری عزائم کے خلاف سری لنکا‘ نیپال‘ بنگلہ دیش وغیرہ کو سٹرٹیجک اہمیت دے رکھی تھی۔اسی طرح پاک چین دوستی کے تناظر میں سری لنکا چین کیلئے بھی کسی حد تک اہم ہے۔ فی الحقیقت سری لنکا کی پاک بھارت تلخ تعلقات کے پس منظر میں علاقائی اہمیت ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ بھارت فی الحقیقت روس‘ امریکہ‘ اسرائیل‘ برطانیہ عالمی طاقتوں اور اداروں کا سٹریٹجک پارٹنر ہے۔روس نے یوکرائن کے جنگی ڈرامے میں چین کو اپنا دم چھلا بنایا جس کے باعث چین کی (عارضی طور پر) بھارت‘ سری لنکا‘ نیپال‘ بنگلہ دیش‘ برما وغیرہ سے توجہ کم ہوئی تو بھارت نے عالمی قوتوں کی درپردہ مذکورہ مدد اور سہولت سے سری لنکا کو دیوالہ بنا کر دہلی کے حضور سربسجود ہونے کی راہ بنائی ہے۔ پاکستان عالمی سٹرٹیجک اہمیت کا ملک ہے۔ قائد اعظم نے امریکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے بجا کہا کہ پاکستان چھوٹا ملک ہے مگر عالمی سیاست کا محور ہے پاکستان دنیا کے لئے اہم ترین تجارتی راہداری ہے۔بھارتی سیاسی و تجارتی راہداری کی بقا بھی پاک سرزمین سے گزرتی ہے۔اسی طرح اسرائیلی استعماری جن کی جان بھی پاکستانی طوطے میں پڑی ہے چین کی عالمی سیاسی و تجارتی راہداری بھی پاک سرزمین سے گزرتی ہے۔ چین کا مستقبل مضبوط‘ مستحکم اور خوشحال پاکستان پر منحصر ہے۔برطانیہ ‘ روس اور امریکہ پاکستان کی سٹریٹجک اہمیت کے ہاتھوں شکست خورد ریاستیں ہیں۔ مغربی طاقتیں اور ادارے پاکستان کو تنہا کر کے پاک چین دوستی کے حوالے آساین سے نہیں ہونے دیں گے۔مغرب بشمول اسرائیل اور بھارت کی حالت یہ ہے کہ وہ پاکستان کی علاقائی اور عالمی اہمیت strategic signifanceکو نظر انداز کریں تو مشرق سے ابھرتی ہوئی چین‘ افغانستان ‘ پاکستان(CAP) جسے متحدہ محاذ اور قوت کو روکنے میں ناکام رہیں گی۔لہٰذا عالمی مالیاتی ادارے مثلاً عالمی بنک ‘ آئی ایم ایف‘ ایشیائی ترقیاتی بنک وغیرہ اور عالمی سیاسی قوتیں پاکستان کے اندر اپنا اثرورسوخ کھو دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔مغرب کے سفید ہاتھی کی حالت یہ ہے کہ پاکستان کو اگل سکتے ہیں اور نہ نگل سکتے ہیں۔ سب کی جان پاکستان میں اٹکی اور لٹکی ہوئی ہے اور پاکستان کو مضبوط حاکمیت‘ نظام اور انتظام کی ضرورت ہے۔جبکہ پاکستان پہلے ہی دنیا کی منجھی ہوئی افواج‘ انٹیلی جنس ایجنسی اور بہترین جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے۔ پاکستان کو فقط جرات رندانہ درکار ہے۔دنیا تعاون پر مجبور ہو گی۔بقول شاعر مشرق علامہ اقبال: آگ ہے‘ اولاد ابرہیم ہے‘ غرور ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے