وزیرِ خارجہ کا حلف لینے میںبظاہر کچھ لیت و لعل کے بعد بلاول زرداری ، نواز شریف سے ملاقات کے لئے لندن پہنچے۔سامنے نظر آنے والی ملاقاتوں کے بعد بتایا گیا کہ قوم کے دو رہنمائوں نے ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ کے اعادے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم درونِ خانہ معلومات رکھنے والے کچھ اورہی کہتے ہیں۔ پاکستان کے نامور صحافی ہارون الرشید صاحب نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران جہاں امریکی سفارت کار پاکستان کے اندر عمران مخالف سیاسی رہنمائوں سے ملاقا تیں کر رہے تھے،تو وہیں بدنامِ زمانہ پاکستان دشمن حسین حقانی نامی شخص لند ن میں پچھلے دروازوں سے ملاقاتوں میں مصروف رہا۔ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات دکھائی دینے لگے تو زرداری صاحب کی طرف سے کچھ مطالبات کی بناء پر ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔حکومت سازی میں رکاوٹیں آئیں تو حسین حقانی ایک بار پھر متحرک ہوا۔ چنانچہ حال ہی میں جب بلاول لندن پہنچے تو مبینہ طور پرحسین حقانی اورسی آئی اے کے کچھ کارندے بھی وہاں موجود تھے۔لندن میں ہونے والی انہی ملاقاتوں کا ہی نتیجہ بتایا جاتا ہے کہ دو بڑی پارٹیاںاگلے سال جون تک موجودہ بندوبست کو قائم رکھنے پر متفق ہو گئی ہیں۔ فیصلہ یہ بھی ہوا ہے کہ سال 2028ء میں اسی معاہدے کے تحت بلاول زرداری کو وزیرِ اعظم بنانے کی’ کوشش ‘کی جائے گی۔ مبینہ طور پر طے پانے والے اس معاہدے کا ضامن خود امریکہ ہو گا۔ لندن میں ہونے والی نواز ، بلاول ملاقات کے بعد چارٹر آف ڈیموکریسی کی جن شقوں کو میڈیا میں خاص طور پر نمایاں کیا گیاہے اُن میں مبینہ طور پر افواجِ پاکستان سے متعلق کچھ معاملات بھی شامل ہیں۔اس سے قبل زرداری صاحب کے ہی دور ِصدارت میں کیری لوگر بل کو پر کشش امداد سے مشروط کیا گیا تھا۔آئی ایس آئی کو وزیرِ داخلہ کے ما تحت کرنے کی بھونڈی کوشش بھی اسی دور میں ناکام ہوئی تھی ۔ افواج پاکستان کو ’پنجاب پولیس ‘ میں بدلنے کی خواہش مگر کئی دلوں میں بدستور دھڑکتی رہی۔حسین حقانی اس وقت بھی زرداری صاحب کا امریکہ میں سفیراورمیمو گیٹ سکینڈل کا مرکزی کردار تھا۔ امریکہ اور بھارت سٹریٹیجک اتحادی بن چکے تھے اور خطے میں بالعموم اور افغانستان میں با لخصوص دونوں کے مفادات یکجا ہو چکے تھے۔ان سٹریٹیجک مفادات کی راہ میںواحد رکاوٹ افواجِ پاکستان کو سمجھا گیا۔یہ دو روایتی اور قدیم اتحادیوں یعنی امریکہ اور افواجِ پاکستان کے درمیان بدگمانی اور مخاصمت کے عروج کا دور تھا۔ چنانچہ یہی وہ دور تھا جب افواجِ پاکستان کو دبائو میں لانے کے لئے ففتھ جنریشن وارفیئر کی چھتری تلے ایک منظم نیٹ ورک کا قیام عمل میں لایا گیا ۔مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اندر کچھ براہِ راست تو کچھ بے لگام این جی اوز کے ذریعے بھاری سرمایہ کاری کی جا نے لگی۔قبائلی علاقوں سے کثیر تعداد میں نوجوانوں کو منتخب کر کے مغربی دارلحکومتوں میں تعلیمی وظائف عطا کئے جانے لگے۔ نو خیز الیکٹرانک میڈیا کے راتوں رات شہرت پانے والے پاک فوج مخالف ’ میڈیا سٹارز‘ اکثر مخصوص سفارت خانوں میں دیکھے جاتے ۔ راتوں رات کہیں سے سول سوسائٹی وجود میں آگئی۔ پاک فوج کاذکر حقارت سے کرنے والی خاتون وکیل رہنماء کے زیرِ اثر گروہ کا اثر و رسوخ انصاف کے سیکٹر میں بڑھنے لگا۔ ان سب عناصر کا مشترکہ ہدف کوئی اور نہیں پاکستان کی افواج تھیں کہ جنہیں امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کے باب میں ’دوغلی پالیسی‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو ادارے کو حیلوں بہانوں سے دبائو میں لانے کا سلسلہ دراز ہوا۔دھرنے کے بعد اگرچہ حکومت کی کمر ٹوٹ گئی تاہم کبھی ڈان لیکس تو کبھی خطے میں سلامتی کے معاملات پر کھلم کھلا متنازعہ بیانات کے ذریعے سیکیورٹی اداروں کو دبائو میںلانے کی کوششیں جاری رہیں۔سول ملٹری کش مکش کے اسی دور میں عمران خان کو حاصل ہونے والی مقبولیت اسٹیبلشمنٹ کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ عمران خان حکومت میں آئے تو پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کار فرما تمام عناصریکایک عمران حکومت کے خلاف یکسو ہو گئے۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت پر تُلے گٹھ جوڑ نے باپ بیٹی کو’ فاشسٹ ‘،’ہائبرڈ ‘ اور ’سلیکٹڈ‘نظام ِحکومت کے مقابلے میں جمہوریت، سویلین بالا دستی ،انسانی حقوق اورخطے میں امن وامان کا چیمپئن بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ طاقتور’انگلش سپیکنگ الیٹ ‘ اور مغرب زدہ لبرلزنے بھی’مذہب پسند‘ عمران کے مقابلے میں تمام امیدیں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی سے وابستہ کر لیں۔ براہِ راست امریکی دبائو میں اضافہ اس وقت ہوا جب جو بائیڈن امریکی صدر بنے۔ چنانچہ لندن کے اندر ملاقاتوں میں تیزی آگئی اور افغانستان میں مسلط امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت کے مہرے بھی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں دیکھے جا نے لگے ۔ اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے ’اغوائ‘ کا بے ہودہ ڈرامہ رچایا گیا تو مریم نوازجھٹ کٹھ پتلی افغان حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ امریکی افواج انتہائی شرمناک انداز میں افغانستان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئیں تو امریکی صدر کا غصہ قابلِ فہم تھا۔ عمران خان کے کچھ غیر محتاط بیانات نے مگر ضرور جلتی پر تیل کا کام کیا ۔’ا یبسلیوٹلی ناٹ‘ ہوا تو امریکہ نے عمران حکومت کے ساتھ تعلقات کار تقریباََ سمیٹ لئے جبکہ عمران خان کا دورہ روس اونٹ کی کمر میں آخری تنکا ثابت ہوا۔ اگلے روز بظاہر نام لئے بغیر مریم نوازنے ایک بار پھراٹک جلسے میں کور کمانڈر پشاورکی ذات کو ہدفِ تضحیک بنایا ہے۔یہ وہی کور کمانڈر ہیں جن کی کمان میںمغربی سرحدوں پر آئے روز ہمارے سجیلے افسر اور جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ خون ان کا بہتا ہے، خون کے آنسو زندہ رہ جانے والے ہم جیسے روتے ہیں۔اسی جنگ کے شہیدوں اورغازیوں کے مقدس خون کی بے توقیری کرنے کی پہچان رکھنے والے دو عدد ارکانِ قومی اسمبلی کی قربت آج کل ہمارے نوجوان وزیرِ خارجہ کے ساتھ زوروں پر ہے۔ دل جن کے افغانستان میں امریکی پٹھوئوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے حامد کرزئی اور اشرف غنی کے جو ترجمانی کرتے اورپاک فوج کو افغانستان میں امریکی اہداف کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ۔سوال یہ ہے کہ بلاول زرداری ، محسن داوڑ کو وزیر کیوں بنوانا چاہتے ہیں؟ دوسری طرف اب کروڑوں پاکستانی ایسے ہیں جو کرپشن کے الزامات میںلتھڑے سیاستدانوں کے علاوہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی عمران حکومت کے خلاف کی گئی ’ امریکی سازش‘ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ہم جیسے ازکارِ رفتہ سپاہی جو برسوں افواجِ پاکستان کے خلاف جاری غیر مرئی جنگ کے خلاف اپنی سی حیثیت میںبر سرِ پیکار رہے، اب بے بسی کے عالم میںاِن کروڑوں پاکستانیوں کو سڑکوں ،چوراہوں اور سوشل میڈیا پر کار فرما دیکھتے ہیں۔بد گمانی پر مبنی یہ وہ عوامی طرزِ عمل ہے جو دو عشروں سے ہم پر مسلط ففتھ جنریشن جنگ سے حاصل نہیں کیا جا سکا تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کواندرونی طور پر تنہا اور بے اثر کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے ؟کیا اب صرف مناسب وقت کا انتظار ہے؟