غزہ کی ایک ماں کے الفاظ سن کر کلیجہ منہ کوآتا ہے۔وہ کہتی ہے: میں نے اُس بیٹے کو کھو دیا ،جس کی پیدائش کے لیے ہم نے آٹھ سال انتظار کیا تھا۔میں کہتی تھی:میرے بیٹے کا چاند ساچہرہ ہو گا ، سنہرے ریشمی بالوں کو سنواروں گی،سیب جیسی گلابی گالوں، کومل چہرے ، پھول سے ہاتھ پائوںکو چوموں گی۔اس کی تُوتلی باتوںسے محظوظ ہوں گی۔اس کے لیے کھلونے لائو گی۔انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھائوں گی۔نت نئے کپڑے خریدوں گی ۔ اسے محبتوں ،شفقتوں اور نازو سے پالوںپوسوں گی، مگر آج میرے خواب چکنا چور ہو گئے۔ننھا پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گیا ۔میری حسرتیں پوری ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئیں۔یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ننھے پھول کو خود ہی لحد میں اتارنا پڑے گا ۔ اے میرے بچے جب تو پیدا ہوا تب ہم نے اپنی ذات کے لیے جینا چھوڑ دیا ،گرمی سے لڑے ،سردی کا مقابلہ کیا،حالات کے پنجوں اور جبڑوں سے تیرے لیے رزق نکالا،اپنی زندگی کو قربان کیا،عیش و عشرت بھول گئے ،جذبات کو سلا دیا ،یہ سب کچھ ،صرف تیرے چہرے پر ایک مسکراہٹ دیکھنے کے لیے ۔ جنگ کے لیے قانون بن چکے مگر فلسطین پر وہ لاگو نہیں ہوتے ،اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے ، گھونسلے سے کوئی بچہ گر ے تو سارا جنگل جاگ اٹھتاہے۔مگر فلسطین میں جنگل کا قانون بھی نہیں ۔دکھوںکی طویل داستاں کہنے کے بعد اس نے آسماں کی طرف منہ کرکے اپنے رب سے کوئی سرگوشی کی اوراس کے آنسو تھم گئے ۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی رازو نیاز کے بعد میں خوف میں مبتلا ہوں کہ کہیں 2ارب مسلمانوں پر رب کا عذاب ہی نہ آ جائے ۔ایک فلسطینی بچے سے ٹی وی اینکر نے پوچھا بڑے ہو کر کیا بنوں گے ۔اس نے جوبات کہی وہ قلم پر لانے سے ہاتھ لرزتے ہیں ۔وہ بولا: ہم بڑے ہی نہیں ہوتے ۔ مجھے اس وجہ سے بھی خوف آ رہا ہے کہ میرے ملک کے سنیٹرزنے گرم سوٹ پہن کر ٹھنڈے حال میں ایک قرار داد پیش کی۔صحافت کوپیغمرانہ پیشہ قرار دیکر ایوان اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے والے محترم سنیٹر عرفا ن صدیقی نے وہ قرار داد پڑھی ۔آپ بھی سن لیں ۔ ’’میرے غزہ کے نہتے باسیو! میرے غزہ کے پھول جیسے بچوں ۔اپنے بچوں کو موت کی آغوش میں جاتے دیکھتی مائوں‘ میری بہنوں‘ میری بیٹیوں‘ میرے بزرگوں ،میرے نوجوان بیٹو! ہم پاکستان کے 24کروڑ لوگ سب کچھ دیکھ رہے ہیں ،ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل نے ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ہے۔ دیکھ رہے ہیں کہ تمہارے گھر کھنڈر ہو رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری بستیاں ملبے تلے دبی قبرستان بن رہی ہیں۔ دیکھ رہے ہیں کہ تمہارے ہسپتال ‘ سکول‘ گھر سب ظالمانہ بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں کہ تم بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہو۔ دیکھ رہے ہیں کہ تمہارے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں بچی۔ دیکھ رہے ہیں کہ چارو ںطرف غارت گری کے بھوت رقص کر رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح بچ جانے والے زخمی بچے ماں باپ کی لاشوں سے چمٹے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ تمہارے دکھ درد میں شریک ہیں۔ لیکن میرے پھول جیسے بچوں، میری مائوں‘ میری بیٹیوں ہم تم سے بھی بڑے بے بس ہیں۔ ہم ان طاقتوں کا نام بھی نہیں لے سکتے ،جو تم پر ظلم ڈھا رہی ہیں ہمیں بھی زندہ رہنے کیلئے روٹی چاہیے۔ڈالر چاہیں ۔ہمیں معاف کردو۔آج نیل سے کاشغر کی خاک تک دو ارب مسلمان نہیں، راکھ کا ایک ڈھیر ہے، ہم بھی اس ڈھیر کا ایک حصہ ہیں، ہمیں معاف کر دو، ہم تمہاری مدد نہیں کر سکتے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتے ،بس اتنی التجا ہے کہ روز محشر اللہ کے حضور ہماری شکایت نہ کرنا اور کر دیں تو حضور انورؐ کی آنکھ سے بچا کر کرنا، ہم کس طرح نبی رحمت کا سامنا کریں گے‘‘۔ ایک وقت تھا جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا ،تب محترم عرفان صدیقی جہاد باالقلم کرتے ہوئے صف اول میں کھڑے نظر آئے ،تب انھوں نے اپنے قلم کو تلوار بنا کر صحافت کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی ۔انھوں نے گلابی آنکھوں ،شہابی گالوں اور سنہری بالوں والی معصوم بچیوں کے نوحے لکھے ۔سقوط قندھار سمیت میدان جنگ میں حریف کی بکھری لاشوں، جلتے خیموں، ٹوٹتی طنابوں اور راکھ کے ڈھیروں کو کالم کا حصہ بنایا ۔امریکہ طاقت کے زعم، طاقت آزمائی کے جنوں، خدا فراموشی، خودسری اور رعونت کے تند خو گھوڑوں پر سوار تھا مگر ہمارے محترم کالم نگار نہ اس ے مرعوب ہوئے نہ دلبرداشتہ ۔مگر آج پارلیمنٹ کی بے بسی دیکھ کر دکھ ہوا ۔ عرفات ابو عاصی کو آج بھی وہ لمحات یاد ہیں۔ جب الاہلی ہسپتال حملے میں اس نے اپنے دو بیٹوں، ایک بھائی اور اپنی بہن کے دو بیٹوں کو کھویا تھا۔اس کا گھر مٹی کا ڈھیر بن چکا ۔مگر وہ آج بھی اسرائیل کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے ۔ عرفات کے بیٹوں احمد اور مازن کی عمریں بالترتیب 13 اور 17 سال تھیں۔ اپنے بیٹوں کو کھونے کی تلخی کے بارے میں وہ بتاتے ہیں : میری شادی کے آٹھ سال بعد آئی وی ایف علاج کی مدد سے ہمارا بڑا بیٹا مازن پیدا ہوا تھا، جس کی عمر 17 سال تھی اور مازن کی پیدائش کے چار سال بعد احمد کی پیدائش ممکن ہوئی۔ہسپتال پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں اپنے خاندان کے پانچ انتہائی قریبی افراد کی ہلاکت کی خبر موصول ہونے کے بعد عرفات ان کی مسخ شدہ لاشیں دیکھنے نہیں گئے اور اپنی بہن کے شوہر سے درخواست کی کہ وہ انکے دونوں بیٹوں، چھوٹے بھائی اور دو بھتیجوں کی تدفین کا بندوبست کریں۔ عرفات کا کہنا ہے :میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو مارے جانے کے بعد نہیں دیکھا اور نہ ہی میری بیوی نے انھیں دیکھا،ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ذہن میں ان کی آخری تصویر دو کٹی پھٹی لاشوں کی صورت میں بنے۔ کابل ،قندھار ،ہرات ،قلعہ جنگی پر اگر نوحے لکھے جا سکتے ہیں تو کیا عرفات کا غم ان سے کوئی کم ہے ۔ شاعر نے کہا:بدّو ! جس راستے پر تو روانہ ہے ، وہ ترکستان کو جاتا ہے ، حجاز کونہیں۔ ہمارے لیڈرشاید امریکہ کو زمینی خدا سمجھ بیٹھے ہیں ۔سپر پاور صرف ایک ہی ہے ،اللہ ۔باقی سب پانی کا ایک بلبلہ ۔حکمران بھی سچائی ، ایثار، خودداری ، قومی اتحاد ، اعتدال اور جدوجہد کا راستہ تلاش کریں۔ باقی تاریکیوں میں گم ہوجانے راستے، سرابوں پر تمام ہونیوالی پگڈنڈیاں۔ سب نے مقررہ وقت پر مٹی میں مل کر مٹی ہو جانا ،لاکھوں بادشاہ، ہزاروں مصاحب رزقِ خاک ہو چکے اور ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔ رزم گاہوں میں سپاہی ہی نہیں تماشائیوں کی حسیات بھی تیز ہو جاتی ہیں۔ہم سپاہی تو نہ بن سکے ،کاش !تماشائی ہی بن جاتے۔تواس قدر بے بسی کا اظہار نہ کرتے ۔