گلزار صاحب کی ہم ہمیشہ شاعری ہی پڑھتے آئے ہیں، فلمی گانوں کی شاعری کے علاوہ ان کی شہرہ آفاق نظموں نے ہمیشہ ہمیں اپنا گرویدہ کیے رکھا،اس کے علاوہ ہم سے ان کا تعارف مرزا غالب جیسے مشہور ڈرامہ سیریز کے ڈائریکٹر کے طور پر رہا مگر اس بات پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ ان کے افسانے اب تک میری نظر سے نہ گزرے تھے۔ افسانے بھی بالکل نئی طرز کے۔ حقیقی زندگی کے چلتے پھرتے مشہور کرداروں کے اصل واقعات کب کہانی میں ڈھل جاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔پڑھنے والا ورطۂ حیرت میں گم رہتا ہے کہ یہ ان کرداروں پر گزری حقیقی واردات ہے یا گوشۂ تنہائی میں گھڑی گئی کوئی کہانی۔ مجال ہے کہ کہیں مبالغے کا احساس تک ہو۔ گلزار صاحب نے اصل کرداروں کے بیچ حقیقی تعلق کو اس خوبصورتی سے بیان کیا ہے گویا وہ ہمارے سامنے اٹھتے بیٹھتے ،جھگڑا کرتے، ایک دوسرے کے لیے آنسو بہاتے اور قلبی واردات کو بیان کرتے پردہ سکرین پر دکھائی دیتے ہوں۔یہاں تک کہ پڑھنے والا محسوس کر سکتا ہے کہ مکالمے کے درمیان ایک کردار نے سوچنے کے لیے لمحے بھر کا توقف کیا ہے اور اس کے چہرے پر مخصوص تاثرات ابھرے ہیں۔ایسا لگتا ہے افسانے لکھے نہیں فلمائے گئے ہوں۔ ’’ڈیوڑھی‘‘ کے نام سے چھپنے والے افسانوی مجموعہ کی پہلی کہانی ’’ساحر اور جادو‘‘ ساحر لدھیانوی اور جاوید اختر کے تعلق کو بیان کرتی ایک شاہکار کہانی ہے۔ جاوید اختر کو دوست احباب جادو کہہ کر بلاتے ۔ اس کہانی کو ’’ساحر اور جادو‘‘ کا عنوان دیناہی قاری کو نہال کر دیتا ہے۔ شراب نوشی کے عادی،گھر سے بھاگے بگڑے غصیلے لڑکے جادو کو ساحر نے کیسے اپنی کرشماتی شخصیت سے جاوید اختر بنایا ،مختصر سی کہانی پڑھ کر دونوں کا رومانوی تعلق سمجھ آ جاتا ہے۔ ذرا دیکھئے: ’’جادو اور ساحر کا رشتہ بڑا عجیب تھا۔جادو جاوید اختر کا نک نام ہے۔ لاڈ کا نام، مزاج شاعرانہ بھی ہے ، باغیانہ بھی۔باپ جاں نثار اختر، ماموں مجاز اور اب سُسر کیفی اعظمی۔باپ کی عزت تو کبھی کی نہیں اس نے ۔ کوئی غصہ تھا، ناراضی تھی جو جادو کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی اپنے باپ کے خلاف۔ ماں کے جیتے جاگتے تو برداشت کر بھی لیتالیکن ان کے گزر جانے کے بعد بات بات پہ گھر سے نکل جایا کرتا اور سیدھا ساحر کے ہاں جا پہنچتا۔ اس کی شکل دیکھتے ہی ساحر سمجھ جاتے تھے کہ پھر باپ سے جھگڑا کر کے آیا ہے۔ لیکن وہ بالکل ذکر نہ کرتے اس بات کا۔ جانتے تھے،پہلے تو جادو بھڑک اٹھے گا اور پھر رو پڑے گا۔ تھوڑا سا وقفہ کر کے کہتے ’’جادو چل آ ،ناشتہ کر لے‘‘۔ اور ناشتہ کرتے کرتے جادو خود ہی بول بال کے بھڑاس نکال لیتا اور بسورتا ہوا وہ دن انہی کے ہاں کاٹ دیتا۔‘‘ پوری کہانی پڑھنے کے لائق ہے کہ کیسے جاوید اختر پھر ساحر سے ہی لڑ پڑتے،ناراض ہو کر انہی کے ہاں رہتے اور منہ بسورے رکھتے۔ اسی لڑائی میں ایک بار سو روپے ادھار لیے جو عمر بھر واپس نہ کیے ، ہمیشہ کہتے رہے دے دوں گا۔جب بڑانام کمایا خوب دولت مند ہو گئے ،سو روپے کی واپسی کا ذکر تب بھی رہتا مگر ادا کرنے کی نوبت نہ آئی ۔پھر جب جاوید اختر ساحر کی میت کو گھر لائے تو ٹیکسی والے نے سو روپے وصول کر لیے۔ کیا کہانی ہے، اصل کہانی ہے مگر کیا بنائی ہے گلزار نے ۔ واہ!! ’’ڈیوڑھی‘‘ پڑھتے پڑھتے کبھی گمان ہوتا ہے یہ افسانے نہیں سفرنامہ ہے، کبھی لگتا ہے کہ خودنوشت ہے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یادداشتوں کو قلمبندکیاہے۔ اب دیکھئے فلم رائٹر بھوشن بنمالی، جو ایسے بے خبر سوتے تھے کہ صبح کو جگانا مشکل ہوتا تھا، کے ساتھ گزری ایک سرد رات کو کیسے بیان کیا ہے: ’’دروازہ کھولا تو ہوا ایسی بے رخی سے داخل ہوئی جیسے ریڈ پہ آئی ہو۔بہت تھوڑا سا کھول کے رکھا تو لچوں کی طرح سیٹی بجانے لگی۔ سمجھ نہ آیا کیا کریں۔ بند کمرے میں انگیٹھی کا دھواں بھر جانے کا اندیشہ تھا۔ کمرے میں کھڑکی نہ تھی۔ ایک طریقہ سمجھ میں آیا کہ ایک سوٹ کیس بیچ میں ڈال کر دروازہ باندھ دیں۔ باندھتے کہاں سے؟رسی تو تھی نہیں ۔ پاجامے کا ناڑا کھولا ، اسے دروازے سے باندھ کر ایک سوٹ کیس بیچ میں اٹکا دیا۔کچھ اطمینان تو ہو گیا لیکن کمرے میں سردی بڑھ گئی۔ نیند غائب ہو گئی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد خیال آتابھوشن کا کیا حال ہو گا۔ایک رضائی اور کمبل تو تھا ان پر ،اٹھ کر ایک رضائی اور ڈال دی۔کچھ دیر بعد ترن نے کہا ہوا دیوار سے ٹکرا کر سیدھی بھوشن کو تلاش کرتی ہے، میں اپنی تلائی بھی ان پر ڈال دیتا ہوں ۔ صبح ان سے پوچھا،کیوں ٹھیک سے نیند آئی رات کو؟ ایک جمائی لے کر بولے ، نیند تو اچھی آئی لیکن یہ بتائیے رات کو آپ لوگ اپنا سامان اٹھا اٹھا کر میرے اوپر کیوں ڈال رہے تھے‘‘۔ گلزار کے افسانے کہیں بوجھل نہیں ہوتے۔ کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ چند لائنیں پڑھنے کے بعد سمجھنے کے لیے واپس پیچھے جاناپڑا ہوا۔ ٹھٹھرتی رات کا منظر بیان ہوتا ہے تو پڑھنے والے کو ٹھنڈ اپنی ہڈیوں میں بھی اترتی محسوس ہوتی ہے اور پڑھنے والا کہانی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے جیسے اسی ماحول کا حصہ بن گیا ہو۔ ایک کہانی گلزار صاحب نے فٹ پاتھ کی زندگی پر بھی لکھی ہے۔ اپنی اس کہانی میں وہ قاری کو قائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ اس بے رحم زندگی میں بھی محبت ایک حقیقت کا وجود رکھتی ہے مگر حالات کی بے رحمی غالب آ ہی جاتی ہے۔مثلا ’’فٹ پاتھ سے ‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:’’رات کو اٹھا تو تھا پیشاب کرنے کے لیے ۔ سڑک کے پار جا رہا تھا ریلوے لائن کی طرف۔ ادھرسے ایک کار آئی بہت تیز، اور اڑا دیا۔ گرا جب اوپر سے نکل گئی۔ روکا بھی نہیں سالے نے۔صبح میونسپلٹی کی گاڑی آئی۔ادھر ادھر پوچھا، میں بولی نہیں۔ کیا کرتی کون جاتا پولیس میں۔ اور پھر لاش لے کر جلاتا کون۔ میونسپلٹی کی گاڑی لے گئی۔ جیسے شینڈی(کتا) کو گھسیٹ کر لے گئی تھی۔ فٹ پاتھ کی زندگی سالی ایسی ایچ ہے۔‘‘