سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے 29ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا، صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے قاضی فائز عیسیٰ سے حلف لیا ۔ نگران وزیر اعظم انورالحق کاکڑ سمیت ملک کی بڑی شخصیات نے حلف برادری کی تقریب میں حصہ لیا ۔ حلف برادری کے دوران جناب چیف جسٹس کی اہلیہ محترمہ سرینا عیسیٰ بھی شوہر کے ساتھ موجود رہیں۔ آج ملک میں ایک طرف غریب مہنگائی کی چکی میں پس چکا ہے دوسری طرف سیاسی اور جمہوری صورتحال اس قدر خراب ہے کہ سانس لینا مشکل ہو رہا ہے، لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آمد سے یقیناََ انصاف کا بول بالا ہو گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف برادری کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی اور اس سلسلے میں فل کورٹ بنچ تشکیل دیا اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی اجازت دی گئی ۔ قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران کہا کہ ایسا اختیار نہیں چاہیئے جس سے ملک و قوم کا نقصان ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا شمار قابل ترین ججوں میں ہوتا ہے ۔ وہ اپنے فیصلوں کے حوالے سے ایک پہچان رکھتے ہیں ۔ ان کے فیصلے عدالتی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ 2011ء میں سپریم کورٹ نے ان کو میموگیٹ کے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنایا، 2012ء میں انہوں نے اپنی رپورٹ جمع کرائی رپورٹ میں امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو قصور وار ٹھہرایا گیا ۔8اگست2016ء کو کوئٹہ میں خود کش حملے کی تحقیقات کیلئے بننے والے کمیشن کے وہ سربراہ تھے ۔ اس حملے میں کئی درجن وکلاء شہید ہوئے تھے ۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ قاضی فائز عیسیٰ نے2015ء میں فوجی عدالتوں کے حق میں دئیے گئے فیصلے سے اختلاف کیا ۔خواتین کو وراثتی حقوق اور21ویں آئینی ترمیم میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو بھی ناجائز قرار دیا ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بہت سے عدالتی فیصلے عدالتی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 17 ستمبر 2023ء کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالا۔وہ25 اکتوبر 2024ء تک چیف جسٹس رہیں گے اور توقع ہے کہ اُن کے آئندہ فیصلے عدالتی تاریخ کا حصہ بنیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد قاضی محمد عیسیٰ بانی پاکستان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور قاضی فائز عیسیٰ کے دادا قاضی جلال الدین قیام پاکستان سے پہلے ریاست قلات کے وزیر اعظم تھے۔ اُن کے خاندان کے ساتھ قاضی کا لفظ پہلے سے موجود آرہا ہے۔ میرٹ پر فیصلے ان کی شہرت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب حقیقی انصاف ہو گا، اب ایسا ہی ہو گا اور وہ تاثر بھی زائل ہو جائے گا کہ اب فیصلے کسی ایک جماعت کے حق اور کسی دوسری جماعت کے خلاف آئیں گے اور میاں برادران سمیت بہت سے لوگوں کی خوش فہمیاں ختم ہو جائیں گی۔ خاندانی پس منظر کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کوئٹہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 27 برس تک وکالت کے شعبہ سے منسلک رہے۔ 1985ء میں بطور ہائیکور ٹ وکیل رجسٹر ہوئے۔ 1998ء میں قاضی فائز عیسیٰ کی بطور وکیل ان کی سپریم کورٹ میں تقرری ہوئی۔ اس عرصہ کے دوران وہ مختلف عدالتوں میں عدالتی معاون کے طور پر بھی شریک ہوتے رہے جبکہ مختلف معاملات میں بین الاقوامی عدالت انصاف بھی جاتے رہے۔ جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کو 2009ء میں سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا تو جن ججز نے سابق فوجی صدر کے عبوری آئینی حکم نامے (پی سی او) کے تحت حلف اٹھایا تھا، وہ تمام اپنے عہدوں سے فارغ ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان ہائیکورٹ کے تمام ججز کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے یوں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی جسے منظور کر لیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 5 اگست 2009ء میں بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ مشرف دور میں عدلیہ کے حق میں تحریک چلی مگر تحریک کی کامیابی کے بعد خود افتخار چودھری بھی سیاسی فیصلے کرتے رہے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے متعدد سابقہ چیف جسٹسز سے اختلافات رہے جن کا برملا اظہار وہ اپنے اختلافی نوٹس میں کرتے آئے ہیں۔ چاہے چیف جسٹس کی جانب سے از خود نوٹس لینے کا معاملہ ہو یا بنچوں کی تشکیل کے اختیارات۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی کی رائے میں ان اختلافات کی اصل وجوہات کبھی سامنے نہیں آئیں۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سابق جسٹس صاحبان ان اختلافات کو ’’اصولوں‘‘ کا نام دیتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پشاور میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو محض اس لیے بنچ سے الگ کر دیا کیونکہ انہوں نے مفاد عامہ کی تشریح سے متعلق سوال اٹھایا تھا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ سے لے کر جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں مقتدر قوتیں ان کے خلاف تھیں مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہر طرح کے حالات کا سامنا کیا اور اپنے موقف پر قائم رہے۔